نئی دہلی : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں ان کا بیان گمراہ کن اور مغالطہ انگیز ہے۔ وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ شریعت اور حدیث کے مطابق عمل کرنا ہے تو چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹ دینا چاہئے، عصمت دری کرنے والوں کو سڑک پر سنگسار کر دینا چاہئے، کسی مسلمان کو سیونگ اکاؤنٹ نہیں کھولنا چاہئے اور لون نہیں لینا چاہئے، یہ تمام باتیں بالکل بے معنیٰ ہے۔ امت شاہ کو یہ تو معلوم کرنا چاہئے تھا کہ یہ قوانین کہاں جاری ہوتے ہیں۔ جرم وسزا کا قانون ایسے ملک میں نافذ ہوتا ہے۔ جہاں مکمل اسلامی شریعت نافذ ہو اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ صرف اسلامی شریعت کا قانون نہیں ہےبلکہ تمام مذاہب کا مشترکہ قانون ہے۔ خود منوسمرتی میں چوری کی سزا اور نقب زنی کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ زنا کرنے والی عورت کی سزا یہ ہے کہ اس کو بھوکے کتوں کے آگے ڈال دیا جائے تاکہ وہ اسے کاٹ کھائیں اور زنا کرنے والے مرد کو لوہے کا پلنگ آگ سے تپا کر اس پر ڈال دیا جائے تاکہ وہ جل کر مرجائے۔ اگر زنا بالجبر کا ارتکاب کرے تو مرد کا عضو تناسل کاٹ دیا جائے۔ البتہ برہمن کو ان سزاؤں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ اس کا صرف سر مونڈنے پر اکتفا کیا جائے گا۔ اسی طرح سود کو ویدوں میں بھی منع کیا گیا ہے۔
موالانا نے کہا کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب گزرے ہیں بہ شمول ہندو مت اور اسلام کے اْن کے یہاں اخلاقی اقدار کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اورتمام مذاہب کے احکامات کے پیش نظر ایسی مثالیں دے کر صرف شریعت اسلامی کو بدنام کرنا متعصبانہ ذہن کا پتہ دیتا ہے۔ اسلام میں شراب کی بھی سخت سزا ہے لیکن جہاں پوری اسلامی شریعت نافذ ہوگی وہاں نہ شراب کے کارخانے ہوں گے اور نہ شراب خانے ہوں گے۔ اسلام میں زنا پر سخت سزا رکھی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ پردے کا پورا نظام رکھا گیا ہے ۔جہاں پوری اسلامی شریعت نافذ ہوگی وہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہیں ہوگا وہاں دونوں کے لئے الگ الگ کلاس رومس ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ وہاں بدکاری کے واقعات خود بخود کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح اسلامی حکومت ہر شہری کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کی پابند ہوگی تاکہ چوری اور ڈاکہ زنی کے واقعات پیش نہ آئیںاور اگر کوئی شخص بھوک اور فاقہ سے مجبور ہو کر چوری کرے تو اس پر چوری کی سزا نافذ نہیں ہوگی۔ جہاں جرم کو روکنے کیلئے ماحول سازی کا کام نہیں ہوا اور صرف سزائیں سخت مقرر کی گئیں وہاں جرم میں اضافہ ہی ہوتا رہا جس کی ایک مثال ہمارا وطن عزیز بھی ہے۔ دستور میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اسی لئے نکاح وغیرہ کو اپنے اپنے مذہب اور رواج کے مطابق انجام دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یقیناََ اسلام میں مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ صرف اجازت ہے۔ اسلام نے اس کا حکم نہیں دیا ہے اور نہ خاص طور پر اس کی ترغیب دی ہے اور یہ اجازت دوسرے مذاہب میں بھی دی گئی ہے۔ ہندو دھرم میں شودر کیلئے تو صرف ایک بیوی رکھنے کی اجازت ہے، ویش کیلئے دو، چھتری کیلئے تین مگر برہمن کیلئے چار اور بادشاہ کیلئے وہ جتنی چاہے کرے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایک سیکولر ملک کا وزیر داخلہ اپنے ہی ملک کی دوسری سب سے بڑی اکائی کے بارے میں نفرت اور تعصب پر مبنی ایسے خیالات کا اظہار کرے۔ آل
انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس کی سخت مذمت کرتا ہے اور تمام برادران وطن سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسی باتوں سے غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ یہ صرف اور صرف سیاسی مقصد کیلئے ایک کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی نامنصفانہ کوشش ہے۔
No Comments: