قومی خبریں

خواتین

شاہی عیدگاہ پارک میں رانی لکشمی بائی کا مجسمہ نصب کرنے کے خلاف عرضی خارج

دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ مجسمہ نصب نہ کرنے کے لیےمسلم فریق کی جانب سے پیش دلیل کی کوئی بنیاد نہیں ہے

دہلی ہائی کورٹ نے صدر بازار واقع شاہی عیدگاہ پارک میں جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا مجسمہ نصب کرنے پر روک لگانے والی مسلم فریق کی عرضی خارج کر دی۔ عدالت نے اس کیس کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ مجسمہ نصب نہ کرنے کے لیے پیش کی گئی دلیل کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کے اس حکم کے فوراً بعد ڈی ڈی اے جھانسی کی رانی کا مجسمہ نصب کرنے کی خاطر پارک کی زمین قبضہ میں کرنے کے لیے شاہی عیدگاہ پہنچ گیا۔ بدھ کے روز زمین قبضے کی اس کارروائی کو انجام دینے کے لیے کثیر تعداد میں پولیس کی تعیناتی بھی کی گئی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی ہائی کورٹ کا مسلم فریق کی عرضی پر کہنا ہے کہ عرضی دہندہ شاہی عیدگاہ (وقف) مینجمنٹ کمیٹی کو دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے ذریعہ شاہی عیدگاہ کے آس پاس کے پارک یا کھلے میدان کے رکھ رکھاؤ کی مخالفت کرنے اور دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) کے ذریعہ اس کے حکم پر مجسمہ نصب کرنے کی مخالفت کرنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی حق نہیں ہے۔ جسٹس دھرمیش شرما کا کہنا ہے کہ ’’اگر یہ مان بھی لیں کہ عرضی دہندہ کے پاس رٹ پٹیشن داخل کرنے کا حق ہے، تو بھی اس عدالت کو یہ نہیں لگ رہا کہ کس طرح سے ان کے نماز ادا کرنے یا کوئی بھی مذہبی عمل کرنے کے حق کو کسی بھی طرح سے خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
دراصل مسلم فریق کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ایک وقف کی ملکیت ہے۔ کمیٹی نے 1970 میں شائع ایک گزٹ نوٹیفکیشن کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ شاہی عیدگاہ پارک مغل دور میں تعمیر ایک قدیم ملکیت ہے جس کا استعمال نماز ادا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ اتنے بڑے احاطے میں ایک وقت میں 50 ہزار سے زیادہ لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس پر عدالت نے ہائی کورٹ کی ایک بنچ کے ذریعہ پاس حکم کا حوالہ دیا اور بتایا کہ فیصلہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ شاہی عیدگاہ کے آس پاس کے پارک یا کھلے میدان ڈی ڈی اے کی ملکیت ہیں اور ان کا رکھ رکھاؤ ڈی ڈی اے کے باغبانی ڈویزن-2 کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ چونکہ شاہی عیدگاہ سے ملحق اور عیدگاہ کی دیواروں کے اندر واقع پارک یا کھلا میدان ڈی ڈی اے کی ملکیت ہے، اس لیے یہ پوری طرح سے ڈی ڈی اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ جیسا مناسب سمجھے اس زمین کے کچھ حصے کو عوامی استعمال کے لیے الاٹ کرے۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *