نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس اتوار کو نئی دہلی میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر بورڈ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کارروائی چلائی۔بورڈ کے نائب صدورمولاناسید ارشد مدنی، سید سعادت اللہ حسینی، پروفیسر ڈاکٹر سید علی محمد نقوی اور بورڈ کے سکریٹریز مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (بہار) اورمولانا محمد یسین علی عثمانی (بدایوں)بورڈ کے خازن پروفیسرمحمد ریاض عمر کے علاوہ صدر جمعیت علماء ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی،سینئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالہ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ترجمان بورڈ (دہلی)، مولانا عتیق احمد بستوی، ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی (ممبئی)، عطیہ صدیقہ، پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، نگہت پروین خان اور ملک بھر سے کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔اجلاس میں درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں۔
بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ مسلم مطلقہ کے نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ قانون شریعت سے راست متصادم ہے۔مسلم پرسنل لابورڈ اس بات کا اعادہ کر نا ضروری سمجھتا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ”اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے“ لہٰذا حتی الامکان ازدواجی زندگی کو بنائے رکھنے کے لئے قرآن میں تاکید کی گئی ہے۔طلاق سے پہلے معاملات کو درست رکھنے سے متعلق بھی قرآن مجید میں ہدایات موجود ہیں لیکن تمام کوششوں کے باوجود ساتھ رہنا دشوار ہوجائے، تواحسن طریقہ سے جدائی ہی ایک معقول اور قابل عمل راستہ رہ جاتا ہے۔ عاملہ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتی ہے یہ فیصلہ نہ خواتین کے لئے مفید ہے اور نا ہی قابل عمل بلکہ اس سے اندیشہ ہے کہ ان کی زندگی مزید بدتر ہو جائے گی۔
ویسے بھی انسانی عقل میں یہ بات نہیں آسکتی کہ جب رشتہ ہی باقی نہ رہے، تو مرد پر مطلقہ کی کفالت کی ذمہ داری کیسے عائد کی جاسکتی ہے۔ مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لئے یونیفارم سول کوڈ بالکل موزوں اور مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کی روح کے بھی منافی ہیں۔یہ اجلاس اتراکھنڈ اسمبلی سے منظور یونیفارم سول کوڈ کو غلط، غیر ضروری اور دستور ہند میں دی گئی ضمانتوں کے خلاف سمجھتا ہے۔ اوقاف دینی اور خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں کے دیئے ہوئے مقدس اثاثے ہیں اور مسلمان ہی اس کے متولی و منتظم ہوتے ہیں اور وہی اس سے استفادہ کے مستحق بھی ہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی اراضی حکومت کے استعمال میں ہیں؛ اس لئے اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کر تا ہے کہ وہ بازار کی شرح (مارکیٹ ریٹ) کے لحاظ سے ان املاک کا کرایہ ادا کرے اور منشاء وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کر ے تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں کی محفوظ کی ہو ئی اس دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
یہ اجلاس اوقاف کے متولیوں سے بھی مطالبہ کر تا ہے کہ وہ خود بھی اوقافی جائیدادوں کے استعمال سے بچیں، دوسروں سے بھی ان کو بچائیں اور وقف کی املاک کے سلسلہ میں خاص طور پر اللہ سے ڈریں۔ مجلس عاملہ کا یہ اجلاس وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عید گا ہ کے تعلق سے نچلی عدالتوں میں پیدا کئے گئے نئے تنازعات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اجلاس کا احساس ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے قانون کے ذریعہ ملک کی مقننہ نے ہر نئے تنازعہ کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ اس اجلاس کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سپریم کورٹ، جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے، اگر ان چور دروازوں کو بند نہیں کیا گیا تو پھر اس بات کا اندیشہ ہے کہ شر پسند قوتیں ملک کے مختلف علاقوں میں نئے نئے فتنے اور تنازعات کھڑے کرتی رہیں گی۔
اسی طرح دہلی کی سنہری مسجد کے تعلق سے این ڈی ایم سی نے ٹرافک کا بہانہ بناکر اس کی شہادت کا جو ناپاک منصوبہ بنا یا تھا، سردست عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے؛ تاہم اجلاس کا احساس ہے کہ سنہری مسجد اور لنٹن زون میں دیگر 6 مساجدشرپسندوں کے نشانے پر ہیں، بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ یہ تمام مساجد اوقاف کی ان 123 جائیدادوں میں شامل ہیں، جن پر عدالت نے اسٹے لگا رکھا ہے- اسی طرح سنہری مسجد اور دیگر مساجد ہیری ٹیج تعمیرات میں بھی شامل ہیں، لہذا ان سے چھیڑ چھاڑ ملک کی تاریخی وراثت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہو گی۔ مجلس عاملہ کو اس پر شدید تشویش ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
No Comments: