نئی دہلی :سابق صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کی صدارت والی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ (وَن نیشن، وَن الیکشن) سے متعلق اپنی رپورٹ موجودہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے حوالے کر دی۔ اس میں کئی اہم سفارشات کی گئی ہیں اور جتنی بھی سیاسی پارٹیوں سے صلاح و مشورہ کیا گیا، اس کی تفصیل بھی رپورٹ میں شامل کی گئی ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیوں نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ تصور کی مخالفت کی ہے، تو کچھ نے اس کی حمایت بھی کی ہے۔موصولہ اطلاع کے مطابق کووند کمیٹی نے مجموعی طور پر 47 سیاسی پارٹیوں کی رائے اپنی رپورٹ میں شامل کی ہے۔ ان میں سے 32 پارٹیوں نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ نظریہ کی حمایت کی ہے، جبکہ 15 دیگر سیاسی پارٹیوں نے مخالفت ظاہر کی ہے۔ یعنی ایک تہائی سیاسی پارٹیاں ملک میں ایک ساتھ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات نہیں چاہتی ہیں، جبکہ دو تہائی سیاسی پارٹیاں چاہتی ہین کہ لوک سبھا کے ساتھ ساتھ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بھی کرائے جائیں۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ 6 قومی پارٹیوں میں سے صرف 2 ہی ایسی پارٹیاں ہیں جنھوں نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کے نظریہ کی حمایت کی ہے۔ یعنی 4 قومی سیاسی پارٹیوں نے اس سے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ حمایت کا اظہار کرنے والی پارٹیوں میں بی جے پی اور نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) ہے، جبکہ مخالفت کرنے والوں میں کانگریس، عآپ، بی ایس پی اور سی پی ایم ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کووند کمیٹی نے الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ 62 سیاسی پارٹیوں سے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ نظریہ کو لے کر رائے طلب کی تھی۔ ان میں سے 18 پارٹیوں کے ساتھ پینل کے اراکین نے ذاتی طور پر صلاح و مشورہ بھی کیا تھا۔ کئی اہم پارٹیوں نے اس نظریہ سے متعلق اپنی کوئی رائے ظاہر نہیں کی، اور ان پارٹیوں میں کچھ بہت اہم پارٹیاں ہیں۔ مثلاً تلنگانہ کی بی آر ایس، جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس، جے ڈی ایس، جے ایم ایم، شرد پوار کی این سی پی، آر جے ڈی، ٹی ڈی پی وغیرہ نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ سے متعلق اپنا کوئی نظریہ ظاہر نہیں کیا۔
No Comments: