قومی خبریں

خواتین

ہندوستان ایک غیر لبرل جمہوریت بنتا جا رہا ہے: جماعت اسلامی ہند

ماہانہ بریفنگ میں تنظیم نے کہا کہ ایک قوم، ایک زبان اور ایک ثقافت‘‘ کا نعرہ ہمارے ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے

نئی دہلی :جماعت اسلامی ہند اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ہمارا یہ ملک آئینی جمہوریت سے بتدریج جانبداریت اور اکثریت پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔اپنی ماہانہ بریفنگ میںتنظیم کی جانب سے کہا گیا کہ ہندوستان کے غیر لبرل جمہوریت کی نشاندہی متعدد واقعات اور پیش رفتوں سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ ابھی حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی سرمائی اجلاس میں اپوزیشن کے تقریبا تمام ہی اراکین ( راجیہ سبھا کے 46 اور لوک سبھا کے 100 ارکان پارلیمنٹ ) کو بغیر کسی ٹھوس الزام کے معطل کردیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغیر اپوزیشن کے پارلیمنٹ میں احتساب کا پہلو صفر اور حکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر سوال کرنے والا کوئی موجود نہیں رہا۔ ًاس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برسراقتدار پارٹی فوجداری قوانین، ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ اور الیکش کمیشن آف انڈیا کی تقرری جیسے قوانین بلا روک ٹوک پاس کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ان نئے قوانین میں ایگزیکٹیو کو غیر معمولی اختیارات دیئے گئے ہیں ۔ حکمراں جماعت کے پارلیمنٹ میں اکثریت میں ہونے کے سبب ، ہمارا ملک ایگزیکٹیو یا ایک ہی لیڈر کے ہاتھوں میں طاقت کے سمٹ جانے کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، جس سے آئینی چیک اینڈ بیلنس کی تاثیر کے کم ہونے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ جو نئے فوجداری قوانین پاس کئے گئے اور جو ضابطے بنائے گئے، ان پر قانونی ماہرین تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔
جماعت اسلامی ہند ، رام مندر کے افتتاح کو سیاسی پروپیگنڈہ اور انتخابی منافع کمانے کا ذریعہ بنانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کا استعمال سیاسی مقاصد اور پولرائزیشن کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔ رام مندر افتتاح کی مذہبی تقریب اس بات کی واضح مثال ہے کہ کیسے کچھ سیاست دان مذہب کا غلط استعمال سیاسی فائدے کے لئے کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس پر حکمراں جماعت کی طرف سے تنقید کی جاتی رہی لیکن اب وہ خود اس میں بے دھڑک شامل ہورہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ رام مندر کا افتتاح ’’ بی جے پی کا ’انتخابی پروگرام‘ اور وزیر اعظم کی ’سیاسی ریلی‘‘ میں بدل گیا ہے۔ اگر اس افتتاحی تقریب کا انتظام ’ مندر ٹرسٹ‘ کی طرف سے کیا جاتا تو حالات مختلف ہوسکتے تھے۔ اس موقع پر سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور منتخب نمائندوں کو کہا جانا چاہئے تھا کہ وہ اس پروگرام سے دور رہیں۔ بالفاظ دیگر کوئی تنازعہ ہی نہ ہوتا اگر اس افتتاح کو بغیر کسی سیاسی تقاریر ، پوسٹرز اور نعروں کے صرف ’’ مذہبی تقریب‘‘ تک محدود رکھا جاتا۔ ’شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر ٹرسٹ‘ کے جنرل سکریٹری نے تو رام مندر کے اس افتتاحی پروگرام کا موازنہ یوم آزادی سے کردیا جو کہ غلط اور تکلیف دہ ہے۔ یہ بیان ملک کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے والا ہے۔ لہٰذا جماعت ا ایسی تشریحات کی مذمت کرتی ہے اور برسراقتدار سے انہیں اپنے عہدے کے حلف کی پاسداری اور آئین و قوانین کو برقرار رکھنے کی گزارش کرتی ہے۔
ٹیلی کام بل 2023 کی حالیہ منظوری پر جماعت اسلامی ہند نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون، حکومت کو ہر طرح کی مواصلات تک پہنچنے کا اختیار دیتا ہے جو تجارتی مفادات اور شہری آزادی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ اس بل میں تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت کو واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹیلی گرام ، یہاں تک کہ ٹنڈر جیسی ایپلی کیشنز کو ٹریک کرکے ذاتی زندگیوں پر نظر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس میں نشانات، سگنلز، متون، تصاویر، آواز، ویڈہوز، ڈیٹا اسٹریمز، انٹلی جینس اور ٹیلی کمیونیکشین کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ اس سے قانون نافذ کرنے والےحکام کے لئے قانون کےغلط استعمال کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بل یونین اور ریاستی حکومتوں کو رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرنے والے میسیج کو روکنے، حراست میں لینے، چنندہ میسیج کی ترسیل نہ کرنے کا اختیار دیتا ہے اور سرکار کو پبلک سیکورٹی کے نام پر موبائل نیٹ ورک کو اپنے کنٹرول میں لینے اور اسے معطل کرنے کا بھی حق دیتا ہے۔ مضبوط احتسابی میکانزم سے عاری اس بل میں سرکار اور حکام کو جو وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں، یہ اس خدشے کو جنم دیتا ہے کہ اس کا استعمال مذہبی اقلیتوں اور پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہراساں کرنے کے لئے کیا جا سکتا ہے ۔ اس لئے جماعت مطالبہ کرتی ہے کہ مذکورہ بل سے ان حصوں کو ہٹانے کے بعد ہی نافذ کیا جائے جن سے شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کو مجروح ہونے کے خدشات پیدا ہورہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند نےغزہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی جہاں جنگ شروع ہونے کے بعد سے 22 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا گیاہے ۔تنظیم نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے نہ رکنے والی فضائی بمباری کے نتیجے میں محاصرہ شدہ انکلیو میں ہلاکت اور تباہی بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی بدترین مثال ہے۔ وہاں عام نہتے شہریوں بالخصوص معصوم بچوں اور خواتین کی نسل کشی، اسپتالوں اوراسکولوں پر اندھا دھند بمباری و دیگرغیر انسانی کاروائیاں بلا روک جاری ہیں اورعالمی برادری اس خوفناک قتل عام پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ غزہ پر اسرائیلی جنگ نے صیہونیوں، امریکہ اور بعض یورپی ممالک کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ جبکہ فلسطینی عوام نے جس حوصلے کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کیا اور غیر معمولی صبرو استقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں، وہ قابل تعریف ہے۔ جماعت اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی اس نسل کشی کی شدید مذمت کرتی ہے اور عالمی برادری واقوام متحدہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کرکے فوری طور پر مستقل جنگ بندی کو عمل میں لائے۔ عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کرے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو یقین بنانے کے لئے اقدامات کرے۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *