دہلی ہائی کورٹ نے ایک معاملے کی سماعت کے دوران بزرگ ماں کے ساتھ نازیبا سلوک کرنے والے ایک بیٹا-بہو کو سخت پھٹکار لگائی ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ انہیں ماں کی جائیداد تو چاہیے لیکن اسے شانتی سے جینے کا حق دینا انہیں گنوارا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں بیٹا اور بہو اور ان کے بچوں کو بزرگ کے گھر سے بے دخل کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس سنجیو نرولا کی بنچ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ بزرگ خاتون کے ساتھ نازیبا سلوک، مالی استحصال اور ذہنی اذیت کے الزامات ضلع مجسٹریٹ کے سامنے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ بزرگ خاتون کی بہو نے شوہر اور ساس کو چھوڑ کر غیر شادی شدہ نند پر گھریلو تشدد کا مقدمہ درج کرایا ہے۔ پہلی نظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بزرگ کے ذریعہ دہلی ماں-باپ اور سینئر شہریوں کی دیکھ بھال اور فلاح قانون (ترمیم)، 2016 کے تحت بیٹا-بہو اور اس کے کنبہ کو بے دخل کرنے کی مانگ کرنے پر بدلہ لینے کی نیت سے قدم اٹھایا گیا۔ضلع مجسٹریٹ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ متعلقہ جائیداد بزرگ خاتون کے شوہر نے خریدی تھی، شوہر کا اب انتقال ہو چکا ہے، ایسے میں اب یہ جائیداد بزرگ خاتون کی ہے۔ ضلع مجسٹریٹ نے بیٹے-بہو اور ان کے کنبہ کو بزرگ کا گھر خالی کرنے کا حکم دیا تھا، ہائی کورٹ نے اسے برقرار رکھا ہے۔
ثالثی کے تحت طے کیا گیا کہ بیٹا-بہو بزرگ خاتون کو 3 ہزار روپے مہینہ کی ادائیگی کریں گے۔ حالانکہ بزرگ خاتون کا کہنا تھا کہ کنبہ ٹوٹ چکا ہے۔ وہ بس شانتی سے زندگی جینا چاہتی ہے، اس لیے بیٹا-بہو اور ان کے کنبہ کو گھر چھوڑنا ہی مناسب ہوگا۔
اس معاملے میں ایک حیران کرنے والی بات بھی سامنے آئی ہے۔ الزام ہے کہ بیٹا اور بہو نے بزرگ ماں کی ہوا اور روشنی تک بند کر دی تھی۔ مجبوراً بزرگ خاتون کو جعفر آباد تھانے میں شکایت درج کرانی پڑی۔ پولیس نے شکایت کو صحیح پایا۔ دراصل بزرگ کا ایک بیٹا-بہو گراؤنڈ فلور پر رہتا ہے۔ بزرگ اپنی غیر شادی شدہ بیٹی کے ساتھ پہلی منزل پر رہ رہی تھی۔ دوسرا بیٹا اور بہو اپنے کنبہ کے ساتھ اس مکان کی دوسری منزل پر رہتے تھے۔ دوسری منزل پر رہنے والے بیٹا-بہو نے بزرگ خاتون کا چھت پر جانے کا راستہ روک دیا تھا۔ پانی کی ٹنکی کی مرمت کرانے میں خلل ڈالا۔ یہاں تک کہ بزرگ خاتون جس منزل پر رہ رہی تھی وہاں روشنی اور ہوا کے پہنچنے پر بھی رکاوٹ ڈال دی تھی۔
No Comments: