نئی دہلی: مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری سید تنویر احمد نے یوپی مدرسہ ایکٹ 2004 کو برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سابق فیصلے کو پلٹ دیا ہےجس نے اپنے فیصلے میں مدرسہ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ریاست میں اقلیتی برادریوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ اس سے ان کے تعلیمی حقوق کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے میں مدد ملے گی ۔ اس فیصلے سے طلبائے مدارس کے تعلیمی حق اور مذہبی اقلیتوں اور ان کے تعلیمی اداروں کو تحفظ حاصل ہوگا ، نیز اس فیصلے سے مذہبی اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرنے والے آئینی اصولوں کی بھی توثیق ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ ریاستی سرکار کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ وہ مذہبی تعلیمی اداروں کو اپنی شناخت کے ساتھ دینی و عصری دونوں طرح کی تعلیم دینے کے حق کا احترام کرے حکومت اس معاملہ میں مدارس کا مناسب تعاون تو کرسکتی ہے لیکن اسےبے جا مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔”
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں، جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے ، ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں ۔ بچوں کو دینی تعلیم و تربیت دینا کوئی غیر قانونی عمل نہیں ہے ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہا کہ سیکولرزم کا مطلب ہے ’’ جیو اور جینے دو‘‘۔ اس سے ہندوستان کے تکثیری معاشرے میں متنوع تعلیمی نقطہ نظر کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں اور ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ اس فیصلے سے کئی اہم نکات سامنے آتے ۔ مثال کے طور پر ( الف ) عدالت نے اس بات کی تصدیق کردی کہ مدرسہ ایکٹ ، ریاست کی ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اس میں تعلیم کو معیاری بنانا اور طلبا کو اس قابل بنانا کہ ان میں سماجی اور معاشی سطح پر شراکت داری کی اہلیت پیدا ہو، حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ( ب) سپریم کوٹ نے آرٹیکل 21 اے اور رائٹ ٹو ایجوکیشن کو مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق سے جوڑتے ہوئے کہا کہ مدارس اپنے مذہبی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے سیکولر تعلیم دے سکتے ہیں‘‘۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے مرکزی تعلیمی بورڈ کے سکریٹری نے کہا کہ ’’ یو پی مدرسہ ایکٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ، سپریم کورٹ نے توثیق کردی ہے کہ ایسے ادارے ہمارے معاشرے میں با معنی اور مثبت کردار اداکرتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان تمام تعلیمی اداروں کے لیے انتہائی خوش آئیند ہے جو اپنی روایت اور مذہبی شناخت کو محفوظ رکھتے ہوئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ اترپردیش میں تقریبا 17 لاکھ مدارس کے طلبا کے تعلیمی سفر کو بہترکرنے میں مدد کرے گا اور ثقافتی اقدار اور آئینی حقوق کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے تعلیمی حق کو تقویت دے گا۔ یہ فیصلہ این سی پی سی آر جیسی ایجنسیوں کے لیے عدالت عظمی کا واضح پیغام ہے جو مدارس کی شبیہ خراب کرنے اور مدارس کو حق تعلیم کے مخالف کی حیثیت سے پیش کرنی کی جھوٹی اور غیر اخلاقی کوششیں کرتی ہیں۔
No Comments: