نئی دہلی :سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے قرضداروں کو بڑی راحت ملنے والی ہے۔ دراصل معاملہ بینک سے لیے جانے والے قرض کا ہے، اور اب ڈیفالٹر یا فراڈ کے طور پر قرضدار کو زمرہ بند کرنے سے پہلے بینکوں کو انھیں اپنی بات رکھنے کا موقع دینا پڑے گا۔گزشتہ سال سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ فطری انصاف کے اصولوں کو توجہ میں رکھتے ہوئے آڈٹ رپورٹ کے نتیجہ کو قرضداروں کو سمجھانے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ بینکنگ ماہرین کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر کے بینک 90 دنوں کے کولنگ پیریڈ کے بعد قرض داروں کے خلاف براہ راست تیزی کے ساتھ قدم اٹھاتے ہیں۔ کئی بار یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ بینکوں کی جلدبازی زیادتی کا سبب بن گئی۔ اسی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے گزشتہ سال آر بی آئی کو اصولوں میں تبدیلی لانے کا حکم دیا تھا۔
وائس آف بینکنگ ادارہ سے جڑے اشونی رانا کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص قرض لینے جاتا ہے تب بینک اس کے سبھی دستاویزات، حیثیت سمیت دیگر پہلوؤں پر غور کرتا ہے۔ ایسے میں جب وہی شخص قرض لوٹانے میں کچھ وقت تک نااہل ہوتا ہے تب بھی ایک موقع دیا جانا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ قرض نہ ادا کر پانے کے پیچھے کی وہج کیا ہے۔ یہی درست طریقہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کئی بار ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جب بینک کی طرف سے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی اور بعد میں متعلقہ قرضدار کے خراب حالات جان کر بھی بینک افسران کوئی مدد نہیں کر سکے۔
No Comments: