قومی خبریں

خواتین

غزہ میں جنگ بندی کیلئے یو این سکریٹری جنرل کی خصوصی کوشش

آرٹیکل 99کا سہارا لیتے ہوئےسلامتی کونسل کو مکتوب ، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی تنقید

نیویارک : اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے غزہ میں جنگ بندی کیلئے آرٹیکل 99 کا سہارا لے لیا۔انٹونیو گوتریس کی جانب سے سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل غزہ میں جنگ بندی پر زور دے، غزہ کی صورتحال اس طرف بڑھ رہی ہے جہاں سے کوئی واپسی نہیں، موجودہ صورتحال پر قابو نہ پایا تو خطے اور عالمی امن پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ غزہ میں وبائی امراض پھوٹنے اور امدادی کام ناممکن ہو جانے کے خدشات ہیں، سلامتی کونسل فوری طور پر اس سنگین مسئلے کے حل پر توجہ دے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 99 یو این سیکرٹری جنرل کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے معاملے کی توجہ سلامتی کونسل کی جانب مبذول کروائیں جس سے بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی کو خطرہ ہو۔اس سے قبل یکم ستمبر 1959 سے لیکر 31 اگست 1966 تک یو این سیکرٹری جنرل کی جانب سے آرٹیکل 99 کا دو مرتبہ استعمال کیا گیا، ایک مرتبہ 1960 میں کانگو کی صورتحال پر اور دوسری مرتبہ 1961 میں تیونس کی صورتحال پر آرٹیکل 99 کا استعمال کیا گیا۔غزہ کی انتہائی کشیدہ صورتحال پر آرٹیکل 99 کے استعمال پر اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گیوٹرس کو حماس کا حمایتی قرار دے دیا۔دوسری جانب اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب ایلی کوہن نے کہا کہ یو این سیکرٹری جنرل کی مدت ملازمت عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرار داد تیار کر لی جس میں انتونیو گوتریس کے خط پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے۔خارجہ امور پر یورپی نمائندے جوزف بورل نے بھی رکن ممالک سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مطالبے کی حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے حالات پر قابو پانے کیلئے سلامتی کونسل کو اقدام کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں انسانیت سوز اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں 7 ہزار سے زائد بچوں سمیت فلسطینی شہدا کی مجموعی تعداد 16 ہزار سے زائد جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 43 ہزار 600 سے تجاوز کر چکی ہے۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *