نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجے کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ سنائے گا۔ یہ معاملہ یونیورسٹی کے اقلیتی درجے کی بحالی کے بارے میں دائر متعدد درخواستوں سے متعلق ہے، جس کی سماعت 7 رکنی آئینی بنچ نے 8 دن تک کی تھی۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسلمانوں کے فائدے اور ان کی تعلیمی اور ثقافتی ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اسے اقلیتی ادارہ سمجھا جانا چاہیے۔
درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے وکلا میں سینئر وکیل کپل سبل، راجیو دھون اور دیگر شامل تھے، جنہوں نے موقف اختیار کیا کہ یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو تعلیم فراہم کرنا تھا اور اس کا انتظام بھی مسلم طبقہ کے ہاتھ میں ہے۔ وکلا نے دلیل دی کہ اے ایم یو کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجے کا حق حاصل ہے، جو مذہبی یا لسانی اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور انہیں خود مختاری سے چلانے کا حق دیتا ہے۔حکومت نے اس مؤقف کی مخالفت کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیاد پارلیمانی قانون کے تحت رکھی گئی تھی۔ حکومت نے 1968 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ قرار دینے کے بجائے اسے مرکزی حکومت کے زیر انتظام ادارہ قرار دیا گیا تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت صرف وہی ادارے اقلیتی درجہ حاصل کر سکتے ہیں جنہیں اقلیتوں نے خود قائم کیا ہو۔
یہ کیس اب نہ صرف اے ایم یو بلکہ ہندوستان کے دیگر تعلیمی اداروں کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس سے اقلیتی ادارے کی تعریف اور ان کے حقوق کی وضاحت ہوگی۔ عدالت کے اس فیصلے سے یہ بھی طے ہوگا کہ آیا پارلیمانی قانون کے تحت قائم ہونے والا ادارہ آئینی طور پر اقلیتی درجہ حاصل کر سکتا ہے یا نہیں؟
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ جس میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پاردیوالا، جسٹس دیپنکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چندر شرما شامل ہیں، اس حساس کیس پر اپنے فیصلہ سنانے کے بعد ممکنہ طور پر تعلیمی اداروں کے اقلیتی حقوق کی حدود کا تعین کرے گی۔
No Comments: