قومی خبریں

خواتین

سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے عرس کا آغاز13جنوری سے

خواجہ معین الدین چشتی ایک علمی اور روحانی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا دادیہال اور نانیہال دونوں گھرانہ تقوی و طہارت اور دین داری میں پیشوائی کا درجہ رکھتا تھا۔

روزنامہ میراوطن تصوف ڈیسک
خواجہ معین الدین چشتی ایک علمی اور روحانی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا دادیہال اور نانیہال دونوں گھرانہ تقوی و طہارت اور دین داری میں پیشوائی کا درجہ رکھتا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ آپ دونوں جہت سے جگر گوشہ رسول سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کے نسب سے تعلق رکھتے تھے۔ یعنی آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ ماں سیدہ ام الورع ماہ نور کی طرف سے حسنی اور والد سید غیاث الدین کی طرف سے حسینی، یہ آپ کی خاندانی نسبت تھی۔
ولادت و وفات: خواجہ صاحب کی تاریخ ولادت میں دو قول ملتے ہیں۔ اول: آپ کی ولادت 530ھ میں ہوئی، دوم: آپ کی ولادت 535ھ میں ہوئی۔ جب کہ تاریخ وفات: 633ھ اور 632ھ ملتی ہے۔ سیر العارفین کے حوالے سے پتا چلتا ہے کہ خواجہ صاحب کی عمر 97 سال تھی۔ اس اعتبار سے خواجہ صاحب کی وفات اگر 663ھ مانیں تو ولادت 536ھ ہونی چاہیے اور اگر وفات 632ھ مانی جائے تو تاریخ ولادت 535ھ بنتی ہے۔ تاریخ ولادت و وفات کا یہ اختلاف کوئی عجوبہ نہیں، بلکہ ایسا ہر اس شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے جن کی تاریخ ابتدا ہی سے مرتب نہیں ہوتی۔ اور خواجہ صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔سلطان جی خواجہ نظام الدین اولیا کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد، خواجہ امیر خورد کرمانی کی کتاب سیر الاولیا اور شیخ جمالی کی کتاب سیر العارفین جن میں نہایت مختصر طور پر دو چند باتیں ہی آئی ہیں، یہ ساری کتابیں کچھ ہی بعد کی ہیں، مگر ان میں بھی تفصیلی حالات مذکور نہیں ہیں۔
جائے ولادت: ہرات کے قریب سیستان نامی جگہ میں خواجہ صاحب کی ولادت ہوئی۔ سیستان جسے عربی میں سجستان کہا جاتا ہے اور اہل عرب اہالیان سجستان کو سجزی کہتے ہیں، اسی لیے خواجہ صاحب کو خواجہ معین الدین چشتی سجزی کہا جاتا ہے۔ جب کہ اردو بول چال والوں کی اکثریت غلط العوام کے طور پر سجزی کی جگہ سنجری کا تلفظ کرتے ہیں۔
تعلیم: خواجہ صاحب کے والد بزرگوار سید غیاث الدین جہاں بڑے تاجروں اور صاحب ثروت لوگوں میں شامل تھے وہیں آپ کا شمار اپنے زمانے کے ممتاز مشائخ میں بھی ہوتا تھا۔چناں چہ ابتدائی تعلیم کے ساتھ خود ہی خواجہ صاحب کو قرآن بھی حفظ کرایا۔ مزید تعلیم کے لیے کوئی بڑا فیصلہ ہوتا کہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چناں چہ جب خواجہ صاحب کی عمر 15 سال کی ہوئی تو والد بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس کے بعد زیادہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ والدہ کی شفقتوں سے بھی آپ محروم ہو گئے۔ نتیجۃً آپ کی تعلیم موقوف ہو گئی۔
تقسیم وراثت کے بعد آپ کے حصے میں ایک باغ اور بور(Bore well) آیا، بعض لوگوں نے بور یعنی پن چکی کی بجائے آٹے پیسنے والی چکی کا ذکر کیا ہے۔ چناں چہ آپ اسی کی دیکھ بھال میں خود کو مصروف رکھنے لگے۔ مگرباغ بانی کا یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک دراز نہ رہ سکا۔ ایک دن ابراہیم قندوزی نامی مجذوب آپ کے باغ میں آ پہنچے۔ ان کی آمد پر آپ نے ان کی از حد تعظیم کی، خوب مہمان نوازی کی اور باغ کے پھل سے ان کی ضیافت فرمائی، جس کی وجہ سے قندوزی صاحب بہت خوش ہوئے۔ قندوزی صاحب نے جانے سے پہلے کوئی چیز چبا کر آپ کو دی جسے آپ نے کھا لیا۔ تذکرہ نگاران لکھتے ہین کہ اسے کھاتے ہی آپ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی اور عشق و عرفان کی جو وراثت والدین کی طرف سے ملی تھی وہ دو آتشہ ہو گئی۔ چناں چہ جلد ہی آپ نے سب کچھ بیچ کر خود کو اللہ کے سپرد کر دیا۔
خواجہ صاحب نے پہلی بار اپنے مرشد گرامی قدر خواجہ عثمان ہارونی کے ساتھ سفر حج کیا جہاں آپ کو بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے ہندوستان کی ولایت سونپی گئی۔ دوسری بار مرشد کے بغیر ہی حج پر روانہ ہوئے اور بارگاہ رسالت سے سفر ہند کا حکم پایا۔ حج و زیارت سے فراغت کے بعد آپ بغداد پہنچے، جہاں کئی نامور مشائخ نے آپ سے اکتساب فیض کیا۔ بغداد سے روانگی کے وقت آپ کے مرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی ساتھ ہو گئے۔ ہمدان، تبریز، خرقان، اصفہان، بلخ اور غزلی ہوتے ہوئے لاہور پہنچے اور داتا گنج بخش مخدوم علی ہجویری کے مزار مبارک پر چلہ کش رہ کر دہلی کے راستے ایک روایت کے مطابق 40/ درویشوں کے ساتھ اجمیر معلیٰ وارد ہوئے۔ آپ جس زمانے میں اجمیر آئے وہ راجہ پرتھوی راج چوہان کا زمانہ تھا۔بغداد سے دہلی آتے ہوئے خواجہ صاحب نے کئی ملکوں اور کئی علاقوں کی تہذیب و ثقافت کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ آپ بذات خود ایک متبحر عالم دین تھے۔ چناں چہ اسلامی سماحت و وسعت فکری کے پیش نظر یہاں کے باشندوں کا از حد خیال رکھا۔ آپ ان کے دکھ درد کا مداوا کرتے، ان کی مظلومیت پر ان کو دلاسہ دیتے اور اپنی معیت و قربت بخش کر بے پناہ پیار و محبت کا سلوک کرتے۔ چناں چہ وہ لوگ جو ذات پات، اونچ نیچ اور امیری و غریبی کے بیچ پسے ہوئے تھے رفتہ رفتہ آپ سے قریب ہونے لگے۔ آپ نے اعلیٰ اخلاقی خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت حکمت کے ساتھ ان کے تاریک دلوں کو شمع توحید سے روشن کرنا شروع کر دیا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفا اور سلسلے کے بزرگوں نے بھی اسی روایت کو فروغ دیا جس کا نتیجہ ہوا کہ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی جلد ہی نور توحید سے منور ہو گئی اور آج بھی جہاں جہاں آپ کی تبلیغی روایت باقی ہے، لوگ شمع توحید سے اپنے تاریک دلوں کو روشن کر رہے ہیں۔

 

خواجہ صاحب کے کئی نامور خلفا ہوئے جن میں آپ کے صاحب زادے خواجہ فخر الدین احمد چشتی بھہ شامل ہیں، جن کا مزار اجمیر معلی سے ۶۰/ کیلو میٹر دور سرواڑ شریف میں مرجعِ خلائق ہے، مگر آپ کی مسند روحانیت کے جانشین قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ہوئے، ان کے بعد ان کے خلیفہ بابا فرید الدین گنج شکر، ان کے بعد سلطان جی خواجہ نظام الدین اولیا اور صابر پاک خواجہ علاء الدین صابر کلیری، سلطان جی کے بعد چراغ چشت خواجہ نصیر الدین محمود دہلوی، ان کے بعد بندہ نواز سید محمد گیسو دراز گلبرگہ اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری اور دیگر مشائخ چشت کے ذریعہ پھر یہ شجر طوبیٰ ایسا برگ و بار لایا کہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی خطہ یا خانقاہ ایسی ملے جہاں چشتی فیضان نہ پہنچا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ کن کے یہاں کون سی نسبت غالب ہے، مگر چشتی فیض سے سبھی مستفیض ہیں۔
خواجہ صاحب کا وصال اجمیر معلیٰ میں 6/ رجب کو ہوا تھا، نماز ِ جنازہ آپ کے صاحب زادے خواجہ فخر الدین احمد چشتی نے پڑھائی اور آپ وہیں مدفون ہوئے۔ اسی لیے ہر سال اسی تاریخ میں اجمیر شریف میں آپ کے عرس کا اہتمام ہوتا ہے جہاں بلا تفریق مذہب و ملت دنیا بھر کے زائرین اکتساب فیض اور حصول برکت کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ ll

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *