قومی خبریں

خواتین

حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ شریعت وتصوف کاآفتاب درخشاں

محمد محفوظ قادری
مکرمی!دین اسلام کی حفاظت کا وعدہ تاقیامت اللہ رب العزت نے خود فرمایا ہے جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ”بیشک یہ ذکر عظیم (قرآن کریم)ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے“۔(قرآن۔سورۂ حجرآیت9)دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا تاقیامت وعدۂ الٰہی اور ساتھ ہی نبوت کے فرائض کی ادائیگی امت مسلمہ کے ذریعہ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ”اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں،اور برائی سے روکیں اور وہی لوگ بامراد ہیں“۔(قرآن۔سورۂ عمران آیت104) مذکورہ آیت کریمہ میں مخصوص جماعت اور گروہ سے مرادامت امسلمہ کے مصلحین،مجتہدین اور مجدددین ہیں۔امت مسلمہ کے ایمان،عقیدے،نظام حکومت اور معاملات میں اگر ہلکی (معمولی)سی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کی اُس زمانے کے مصلحین اصلاح کرتے ہیں۔ اوراگریہ معمولی سی خرابی بگاڑ کی شکل اختیار کرلے لوگ دین سے دور ہونے لگیں،دین پر عمل کرنا دشوار ہوجائے تو اس کی اصلاح کیلئے مجتہد آئیں گے۔ اگر یہی بگاڑ اس قدر بڑھ جائے کہ دین کی قدریں پامال ہونا شروع ہوجائیں،دینی شعارکا مذاق اڑایا جانے لگے،دین پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے دین کانام و کام محض دکھاوے وریاکاری کیلئے رہ جائے،دین اسلام کی مخالف طاقتیں بہت طاقتور ہوجائیں، دین کاکام کرنے والوں کیلئے کام کرنا دشوار ہوجائے تو ان نازک حالات میں اللہ رب العزت کی طرف سے مجدد کو بھیجا جاتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ”اللہ جسے چاہتا ہے اپنے حضور میں (قرب خاص اوردین کی خدمت کیلئے)منتخب فرمالیتا ہے اور اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے (آنے کا)جو قلبی رجوع کرتا ہے“(قرآن۔سورۂ شوریٰ آیت 13) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کیلئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص کو پیدا فرمائے گاجو اس امت کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔(ابوداؤد)ان نازک حالات میں اللہ تعالیٰ اپنے دین کی بقااورتحفظ کیلئے جن بندوں کاانتخاب فرماتا ہے ان میں یہ چند خصوصیات بچپن سے ہی پائی جاتی ہیں۔ایسے لوگوں کا انتخاب اللہ تعالیٰ ان کے بچپن سے ہی فرمالیتا ہے،یہ بچپن سے ہی بہت ذہین ہوتے ہیں،ان کا بچپن عام بچوں سے مختلف ہوتا ہے،یہ باکردار،باحیا،محنتی اور بہت ذہین ہوتے ہیں،خداداد تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ان کے مرتبہ ومقام سے ان کے والدین کو بچپن سے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے ان تمام خصوصیات کو جمع کیا اللہ رب العزت نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمدفاروقی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات بابرکت میں۔آپ کا اسم گرامی ”احمد“کنیت’’ابوالبرکات“لقب ”بدرالدین“اور خطاب’’امام ربانی مجد الف ثانی“ہے۔آپ کی ولادت شب جمعہ14 شوال المکرم 971 ھ مطابق 5جون 1564ء کو سرہندمیں ہوئی۔آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت شیخ عبد الاحد فاروقی ؒاور معروف(مخدوم)سے تھے اسی وجہ سے آپ کی اولاد کو”مخدومی“ بھی کہا جاتا ہے۔آپ کے والد جلیل القدر علماء میں سے تھے اور طریقت میں شیخ عبد القدوس گنگوہیؒ سے بیعت کا شرف حاصل تھا۔آپ کاسلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچ جاتاہے اس لئے آپ فاروقی کہلاتے ہیں۔بچپن سے ہی آپ سے ولایت کے آثار ظاہر ہوتے تھے چہرۂ مبارک پر بھی عجیب نور ظاہر رہتا تھاجو بھی آپ کو دیکھتا تووہ اس آیت مبارک کا مصداق سمجھتا ”یوں لگے جیسے اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگر چہ اسے آگ نے مس نہیں کیا ہو“۔(قرآن۔سورۂ نورآیت 35)ایک مرتبہ آپ بچپن میں بیمارہوئے اور کافی کمزور بھی نظر آنے لگے تھے آپ کی والدہ بہت بے چین وپریشان ہوئیں آپ کو حضرت شاہ سید کمال کیتھلی قدس سرہ‘ کی بار گاہ میں لیکر حاضر ہوئیں اور دعا کی درخواست کی حضرت شاہ کمال کیتھلی قادری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ”مطمئن رہو آپ کے بچے کی عمر دراز ہوگی یہ اپنے وقت کاعالم،عارف،کامل ہوگا۔ آپ کے حق میں بہت سی بشارتیں حضرت شاہ کمال کیتھلی ؒ نے آپ کے والد کو بھی سنائی تھیں۔آپ کو مجدد الف ثانی اس لئے کہتے ہیں یعنی پرانے کو ”نیا“ کرنے والا،یا اس طرح سمجھ لیا جائے کہ کسی بھی معاملہ کو اس کی ”اصل“ کی طرف لانے والا۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہزار سال پورے ہو رہے تھے تو شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔ آپ نے دین اسلام کی تجدید و حفاظت اور احیاء شریعت کا جو عظیم کام بر صغیر پاک و ہند میں سرانجام دیا وہ اسلامی تاریخ میں امتیازی شان رکھتا ہے۔اسی وجہ سے آپ کا لقب مجدد الف ثانی ایسا مشہور ہوا کہ لوگ آپ کو اسی نام سے زیادہ جانتے اور پہچان تے ہیں۔آپ نے ابتدائی تعلیم میں قرآن کچھ درسی وتصوف کی کتب اپنے والد ماجد سے پڑھیں۔اس کے بعد حضرت مولانا کمال کشمیری ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عضدی وغیرہ جیسی دقیق کتابیں پڑھیں۔پھر حضرت مولانایعقوب حسن صرفی کشمیری سے آپ نے کتب حدیث پڑھیں اور سلسلہ کبرویہ میں حضرت مجدد علیہ الرحمہ آپ سے بیعت ہوئے۔ان کے بعد حضرت مجدد صاحب نے قاضی بہلول بدخشی سے چودہ یا پندرہ کتب کی روایت و اجازت حاصل کی۔ان کتب میں تفسیر واحدی اور اس کی مؤلفات،تفسیر بیضاوی اور اس کی مصنفات،بخاری اور اس کی مؤلفات،مشکوٰۃ تبریزی،شمائل ترمذی،امام سیوطی کی جامع صغیر،قصیدہ بردہ وحدیث مسلسل الراحمون یرحمھم الرحمان ارحموامن فی الارض یرحمکم من فی السمائکے ساتھ مشکوٰۃ المصابیح کی اجازت حاصل کی یہاں تک کہ حضرت مجدد صاحب سترہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔تحصیل علوم سے فراغت کے بعدآپ آگرہ تشریف لے گئے اس زمانہ میں آگرہ دارالسلطنت اور مرکز اہل فضل وکمال تھا وہاں آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔آگرہ میں آپ کا کافی دن تک قیام رہا آپ کے والدشیخ عبد الاحد بھی آپ کی محبت میں آگرہ تشریف لے آئے۔جب آگرہ سے سرہند کیلئے آپ اپنے والد کے ساتھ واپس ہوئے توتھانیسرنامی مقام پر آپ کا نکاح شیخ سلطان کی صاحبزادی سے ہوا۔اللہ نے آپ کو سات صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔جب تک آپ کے والد(شیخ عبد الاحد فاروقی) حیات رہے آپ والد کی خدمت میں رہے۔ میدان طریقت میں آپ نے اپنے والد سے سلسلہ چشتیہ،قادریہ میں بیعت وخلافت حاصل کی۔سلسلہ کبرویہ،سہروردیہ،قلندریہ اور مداریہ میں بھی آپ کو آپنے والد سے نسبت حاصل تھی۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شاہ کمال کیتھل قادری ؒ سے ایام طفولیت میں توجہات حاصل ہوئیں لیکن جب شعوری عمر کو پہنچے تو شاہ کمال کیتھلی ؒکے نبیرہ وجانشین سید شاہ سکندر کیتھلی ؒ کے دست مبارک سے شاہ کمال کیتھلی ؒکا خرقہ خاص عطا ہوااور ساتھ ہی سلسلہ عالیہ قادریہ میں اجازت و خلافت بھی حاصل ہوئی۔خرقہ مبارک کا عطا ہونا اور خلافت سے نوازنا یہ شاہ کمالؒ کی وصیت کے مطابق ہوا جو آپ نے اپنی حیات میں فرمائی تھی۔ حضرت خواجہ باقی باللہ صاحبؒ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر انتہائی کمال حاصل کیا۔حضرت خواجہ باقی بااللہ صاحبؒکے احسانات کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مجدد صاحب نے اپنے مخدوم زاد وں کی خدمت میں تحریر فرمایا تھا”حمد و صلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد مخدوم زادوں کی جناب میں عرض ہے کہ یہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والد بزرگوار کے احسانات میں غرق ہے اور طریقہ نقشبندیہ میں الف،ب کا سبق ان ہی (خواجہ قدس سرہ‘)سے حاصل کیا ہے اس راہ میں حروف تہجی بھی ان ہی سے سیکھے ہیں اور اندراج النہایۃفی البدایۃ(ابتداء میں انتہا کا درج ہونا)کی دولت بھی ان ہی کی صحبت کی برکت سے حاصل ہوئی ہے۔ان کی توجہ شریفہ نے ”ڈھائی ماہ‘‘میں اس ناقابل کو نسبت نقشبندیہ تک پہنچا دیا اور ان اکابر کا حضور خاص عطا فرما دیا۔ان کی توجہ شریف کی برکت سے معارف توحید،اتحاد،قرب و معیت اور احاطہ وسریان میں شاید ہی کوئی دقیقہ رہ گیا ہو جو اس فقیر پر نہ کھولا گیا ہو اور اس کی حقیقت کی اطلاع نہ دی گئی ہو“۔حضرت مجدد صاحب کو خواجہ باقی بااللہ صاحبؒ سے بیعت ہونے کے بعد جوباطنی ترقیاں وکمالات حاصل ہوئے وہ اپنے آپ میں خود ایک مثال ہیں حضرت مجدد صاحبؒ اپنی پاکیزہ فطرت کی وجہ سے اپنے باطنی کمالا ت و روحانی ترقیوں پر ہمیشہ اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کیا کرتے تھے یہاں تک کہ جن کے ذریعہ(مولا ناحسن کشمیریؒ) آپ کوحضرت خواجہ باقی باللہ صاحب ؒکے دربار تک رسائی حاصل ہوئی ان کا بھی آپ نے منکسرانہ انداز میں شکریہ ادا کیا

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *