قومی خبریں

خواتین

اوبی سی اور مسلم خواتین کو ریزرویشن کیوں نہیں ؟

اویسی کی جانب سے خواتین ریزرویشن بل کی مخالفت،کہا کہ صرف سوورن خواتین کا فائدہ

نئی دہلی: اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے خواتین کے ریزرویشن بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف “سوورن خواتین” کو ریزرویشن فراہم کرے گا۔انہوں نے سوال کیا کہ او بی سی اور مسلم خواتین جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی اس سے بھی کم ہے، انہیں کوئی کوٹہ کیوں نہیں دیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اس قانون کی مخالفت کرتا ہوںکیونکہ اس بل کے لیے جو جواز پیش کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ خواتین منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آئیں گی۔ اگر یہی جواز ہے تو اس جواز کو او بی سی اور مسلم خواتین تک کیوں نہیں بڑھایا جا رہا ہے جن کی اس معزز ایوان میں نمائندگی محدودہے۔انہوں نے کہاکہ ہم جانتے ہیں کہ مسلم خواتین آبادی کا سات فیصد ہیں، لیکن اس لوک سبھا میں ان کی نمائندگی صرف 0.7 فیصد ہے۔
واضح ہوکہ مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے آئین میں ترمیم کا بل پیش کیاہے جس میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں خواتین کے لیے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں 33 فیصد نشستیں ریزرو کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔بل کے مطابق یہ لوک سبھا حلقوں کی حد بندی کے بعد نافذ العمل ہوگا ،حد بندی اگلی مردم شماری کے بعد ہوگی۔
بل پر بولتے ہوئے اویسی نے کہاکہ یہ مودی حکومت سوورن خواتین کی نمائندگی بڑھانا چاہتی ہے، وہ او بی سی خواتین اور مسلم خواتین کی نمائندگی نہیں چاہتی۔انہوں نے کہا کہ لوک سبھا کے لیے اب تک690 خواتین ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں اور ان میں سے صرف 25 مسلم کمیونٹی سے آئی ہیں۔
اویسی نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا؟ 1950 کا صدارتی حکم کیا ہے؟ آپ اس ریزرویشن کے اندر مسلم خواتین کو کوٹہ دینے سے انکار کر کے انہیں دھوکہ دے رہے ہیں۔1950 کے آئین (شیڈولڈ کاسٹ) آرڈر میں صرف ہندوؤں کو ایس سی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ 1956 اور 1990 میں ترمیم کی گئی جس میں سکھ دلتوں اور بعد میں بدھ دلتوں کو شامل کیا گیا۔اویسی نے کہا کہ مسلم خواتین کو دوہرے امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے حکمراں بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ مسلم اور او بی سی خواتین کو ان کے جائز حصہ سے محروم کر رہی ہے۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *