معراج رسولﷺ ایک عظیم معجزہ ہے
٭ جب آپﷺ بیت المقدس پہونچے تو وہاں پہلے سے ہی تمام انبیاء کرام علیہم السلام آپ کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ اورصفیں باندھے کھڑے تھے، جبرئیل امین علیہ السلام نے فرمایا آپﷺ تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کی اقتداء میں بیت المقدس میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے دو رکعت نماز ادا کی۔
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ نے اپنے پیارے محبوبﷺ کو بڑے بڑے عظیم معجزوں سے نوازا۔ آپﷺ کے عظیم معجزات میں سے ایک معجزہ معراج کا واقعہ ہے۔ یہ بعثت کے گيارہويں سال اور ہجرت سے دو سال پہلے، 27 رجب المرجب، پير شريف ککی سہانی اور نور بھری رات پیش آیا۔
٭ واقعہ معراج کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس طرح بیان فرمایا: ترجمہ کنزالایمان: پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام(خانہ کعبہ) سے مسجد اقصا(بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
واقعہ معراج النبیﷺ:
٭ حضورﷺ اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر آرام فرمارہے تھے کہ جبرئیل امین آئے۔ حضرت میکائیل علیہ السلام بھی ساتھ تھے۔ چھت کو پھاڑا اور پیارے محبوبﷺ کو جگایا۔ کیسے جگایا؟ سبحان اللہ! حضرت علامہ یوسف نبہانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ’’حجتہ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین ‘‘میں حضرت جبرئیل امین کے جگانے کا وہ نرالا انداز بیان فرمایا۔ لکھتے ہیں کہ ناموس اکبر نے اپنے گال پیارے محبوبﷺ کے تلوؤں سے رگڑے اور آپﷺ نے آنکھیں کھول دیں۔ پھر آپﷺ کو حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے مسجد حرام ميں لے آئے اور آپﷺ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے پر تھا، پھر آپﷺ کا شق صدر فرمايا، حضرت جبرائيل علیہ السلام نے پيارے آقاﷺکے قلب اطہر کو آب زم زم سے غسل ديا اور پھر ايمان وحکمت سے بھر کر واپس اس کی جگہ رکھ ديا۔
براق کی سواری:
٭ پھر آپﷺ کے لیے بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیا۔ پیارے محبوبﷺ اس براق پر سوار ہوئے جو حضرت جبرئیل امین ساتھ لائے تھے اور اس براق کی کیفیت حضورﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ ایک جانور تھا جو خچر اور گدھے سے مشابہت رکھتا تھا لیکن نہ خچر تھا نہ ہی گدھا تھا بلکہ ان کے درمیان ایک چیز تھی اور اتنا تیز رفتار تھا کہ جہاں تک نظر کام کرتی تھی وہاں اس کا قدم ہوتا تھا وہ آپﷺ کو لے کر چلا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں جب موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نماز پڑھ رہے ہیں۔ اللہ اکبر! اب دیکھئے، آپ غور کریں معجزے کے اندر معجزہ موجود ہے۔ پیارے محبوبﷺ قبر مبارک کے اندر بھی ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ بیت المقدس پہنچ گئے۔
بیت المقدس میں تمام انبیاء کرام کی امامت:
٭ جب آپﷺ بیت المقدس پہونچے تو وہاں پہلے سے ہی تمام انبیاء کرام علیہم السلام آپ کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ اورصفیں باندھے کھڑے تھے، جبرئیل امین علیہ السلام نے فرمایا آپﷺ تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کی اقتداء میں بیت المقدس میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے دو رکعت نماز ادا کی۔
آسمانوں کی طرف سفر:
٭ پھرحضورﷺ کو آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
سدرۃ المنتہیٰ:
٭ پھر حضورﷺ حضرت جبرائيل علیہ السلام کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ سدرۃ المنتہیٰ ایک بیری کا درخت ہے۔تو جبرئیل نے براق کو اس کے ساتھ باندھ دیا اور عرض کی یا رسول اللہﷺ! میری منزل ختم ہو گئی ہے،میں اس سے آگے نہیں جا سکتا۔ کیونکہ اگر میں یہاں سے ایک بال کی نوک کے برابر بھی اوپر جاؤں تو میرے پرجن میں آسمانوں اور زمینوں کو گھیرنے والی قوت و طاقت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات سے جل کر راکھ ہو جائیں گے۔
مقام مستویٰ:
٭ حضورﷺ جب سدرۃ المنتہیٰ سے آگے بڑھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام وہیں ٹھہر گئے اور آگے جانے سے معذرت خواہ ہوئے۔ پھر آپﷺ آگے بڑھے اور بلندی کی طرف سفر فرماتے ہوئے ایک مقام پر تشریف لائے جسے مستویٰ کہا جاتا ہے۔
بیت المعمور:
٭ اس کے بعد بیت المعمور حضور اکرمﷺ کے سامنے کردیا گیا جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے اللہ کی عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔
عرش اعظم اور لا مکاں:
٭ پھر حضورﷺ مقام مستویٰ سے آگے بڑھے تو عرش آیا، آپﷺ اس سے بھی اوپر تشریف لائے اور پھر وہاں پہنچے جہاں خود ” کہاں“ اور ” کب“ بھی ختم ہو چکے تھے کیونکہ یہ الفاظ جگہ اور زمانے کے لئے بولے جاتے ہیں اور جہاں حضورﷺ رونق افروز ہوئے وہاں جگہ تھی نہ زمانہ۔ اسی وجہ سے اسے لامکاں کہا جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے اپنے محبوبﷺ کو وہ قرب خاص عطا فرمایا کہ نہ کسی کو ملا نہ ملے۔
دیدار الٰہی اور ہم کلامی کا شرف:
٭ آپﷺ نے شب معراج میں حالت بیداری میں سر کی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کیا کہ پردہ تھا نہ کوئی حجاب، زمانہ تھا نہ کوئی مکان، فرشتہ تھا نہ کوئی انسان، اور بے واسطہ کلام کا شرف بھی حاصل کیا۔
تین عظیم انعامات:
٭ اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں آپﷺ کو تین عظیم انعامات عطا فرمائے۔ (1) اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو پچاس نمازیں فرض کیں۔ تو حضور ﷺ نمازوں کو لے کر خوشی خوشی واپس آ رہے ہیں کہ راستے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرمﷺ چند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کردی گئیں یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرمﷺ نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اللہ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی : میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بناکر دیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اورثواب میں پچاس ہی ہیں۔ (2) حضورﷺ کو اس مبارک رات میں دوسرا انعام سورۃ البقرہ کی آخری آیت (آمَنَ الرَّسُولُ سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی۔ (3) آپﷺ کو شب معراج میں تیسرا انعام یہ دیا گیا کہ ائے محبوب آپ کے امیتوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
واپسی کا سفر:
٭ اس کے بعدحضورﷺ نے واپسی کا سفر شروع کیا، یہ اللہ تعالٰی کی قدرت ہے کہ اس نے رات کے مختصر سے حصے میں اپنے محبوبﷺ کو بیت المقدس اور پھر ساتوں آسمانوں نیز عرش وکرسی سے بھی اوپر لامکاں کی سیر کرائی، بعض نادان جو ہر بات کو عقل کے ترازو پر تولنے کے عادی ہوتے ہیں ایسے معاملات میں بھی اپنی ناقص عقل کو دخل دیتے ہیں۔
صِدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی تصدیق:
٭ حضورﷺ صبح کو جب اپنے سفر معراج کی خبر دی تو عقل پرست کفار ومشرکین کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ کوئی شخص رات کے مختصر سے حصے میں بیت المقدس کی سیر کیسے کرسکتا ہے؟ جس کے نتیجے میں انہوں آپﷺ کی تکذیب کی۔ پھر ابو جہل دروڑتا ہوا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگا کہ دیکھو میں تمہیں کہتا تھا کہ یہ تمہارا دوست ایسی ویسی باتیں کرتا رہتا ہے، آج تو وہ ایک نئی بات کہہ رہا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا فرما رہے ہیں۔ تو ابو جہل نے کہا کہ وہ کہتا ہے کہ میں آن کی آن میں بیت المقدس گیا، وہاں انبیاء کو نماز پڑھائی پھر آسمانوں پر گیا، اللہ تعالیٰ سے میں نے ملاقات کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے ابو جہل یہ باتیں اگر تو اپنی طرف سے کہہ رہا ہے تو بالکل جھوٹ ہے اور اگر میرے محبوبﷺ نے یہ سب کچھ فرمایا ہے تو اسی طرح سچ ہے جس طرح یہ سورج چڑھا ہوا ہے۔ سبحان الله! اسی دن آپ رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب ملا۔
No Comments: