دنیائے سنیت کا وہ عظیم الشان رہنما جس نے اپنے علم و فضل سے حق و باطل کے مابین تفریق کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی، جس نے اپنے سیف قلم سے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجروح و مردود کر دیا، جس نے اپنی تقریر و تحریر سے بد دینوں کا منہ بند کر دیا، جس نے ہمارے قلوب و اذہان میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا چراغ روشن کیا، جس کے علم و فضل، تحریر و تصنیف کی خوشبو آج بھی باقی ہے، جو دین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا وارث ہے، جو شہنشاہ اولیاء سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مظہر ہے، جو اپنے زمانے کا امام ابو منصور ماتریدی اور امام ابو الحسن اشعری ہے، اُس علم کے ٹھاٹھیں مارتے ہوۓ سمندر کو دنیا تاج العلماء، امام الحکماء، سراج الفقہاء، رہبر الصلحاء، بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، کشتۂ عشق رسول، جامع معقول و منقول، محب اولاد بتول، فاضل جلیل، عالم نبیل، العالم، الحافظ، القاری، المحدث، المفسر، المدقق، المحقق، المفکر، المؤرخ، الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی لقد رضی المولیٰ عنہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔
آپ سے پہلے بہت سارے علماء، فقہاء گزرے جنہیں زیادہ سے زیادہ سات، یا آٹھ علوم و فنون میں مہارت حاصل تھی، لیکن امام عشق و محبت سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو بفضلہ تعالیٰ باون علوم و فنون میں مہارت تامہ حاصل تھی، بعض علماء نے 100 سے زیادہ علوم کا قول کیا ہے،
آپ نے جس مسئلہ پر قلم اٹھایا تحقیق اور دلائل و براہین کے انبار لگاتے چلے گئے یہاں تک بعض مسائل طوالت کے سبب مکمل رسالہ کی شکل اختیار کر گئے،
آپ کے بعض رسالوں کے نام جیسے: مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین
النھی الحاجز عن تکرار صلاۃ الجنائز
اکمل البحث علی اہل حدیث
الاسئلۃ الفاضلہ علی الطوائف الباطلہ
النعیم المقیم فی فرحۃ مولد النبی الکریم
منیر العین فی حکم تقبیل ابھامین
طوالع النور فی حکم السراج علی القبور
الحرف الحسن فی الکتابۃ علی الکفن
النذیر الھامل لکل جلف الجاہل
اس کے علاوہ بے شمار رسالے اعلیٰ حضرت نے تحریر فرمائے۔
جس موضوع پر بھی آپنے قلم اٹھایا تو اس علم و فن کے ماہرین بھی حیران و پریشان ہوگئے اور اعلیٰ حضرت کے علم و فضل کا اعتراف کرتے چلے گئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے علوم دینیہ کے علاوہ صرف سائنسی علوم و فنون کے متعلق جو کتابیں تصنیف کیں ان کی تعداد 150 تک پہنچتی ہے۔ اور آپ کی تصانیف کی تعداد 1000 سے زائد ہے جو کہ مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہے۔ جہاں آپ نے دینی علوم پر تصانیف لکھ کر امت مسلمہ کو فائدہ پہنچایا وہیں دنیوی علوم پر آپ کی تصانیف آپ کی مہارت تامہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جیسے علم سائنس، علم توقیت، علم ہیئت، علم حساب، علم ھندسہ، علم ریاضی، علم جفر وغیرہ پر آپنے بے شمار کتابیں تحریر فرمائیں،
آپنے تدریس و تقریر کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ توجہ فرمائی، کیوں کہ تدریس و تقریر کا اثر محدود، اور جلد ختم ہونے والا ہے، اور تصنیف و تحریر کا اثر غیر محدود پختہ اور رہتی دنیا تک رہنے والا ہے، تصنیف و تالیف کی بدولت بے شمار علماء و فقہاء کا فیضان آج بھی جاری و ساری ہے، اسی وجہ سے حضور اعلیٰ حضرت نے بچپن ہی سے تحریری کام جاری رکھا، جس وقت آپکی عمر شریف آٹھ سال کی تھی آپنے ہدایۃ النحو کی شرح عربی زبان میں تحریر فرمائی، اُس کے بعد جب آپ تیرہ سال کے ہوئے تو اس وقت حمد و ہدایت کی تعریف میں عربی زبان میں ایک رسالہ تحریر فرمایا، جس کا نام “ضوء النہایہ فی اعلام الحمد و الہدایہ” ہے
آپ مذکورہ علوم میں مکمل مہارت رکھتے تھے، اس کے علاوہ آپ کو علم طب میں بھی کافی عبور حاصل تھا، سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی عادت کریمہ تھی، بغیر تحقیق اجزا آپ کوئی دوا استعمال نہیں فرماتے تھے: ایک روز حکیم عبد السبحان صاحب جو ممبئی سے علم جفر سیکھنے کے لئے آئے تھے، اور مقیم آستانہ شریف تھے، ایک چھوٹی سی شیشی میں رقیق دو آنکھوں میں ڈالنے کے لئے پیش کرتے ہیں، حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اس کے اجزا دریافت فرمائے، حکیم صاحب نے عرض کیا: حضور استعمال تو فرمائیں، اور بہت تعریف کی، آپ نے فرمایا: میں بغیر تحقیق اجزا کوئی دوا استعمال نہیں کرتا ہوں، حکیم صاحب نے اطمینان دلاتے ہوئے یہی کہا: کہ اِس میں کوئی مضر نہیں ہے ایک بار کے استعمال سے حضور فائدہ محسوس کریں گے، اسی وقت اجزا بھی بتا دوں گا، غرض کہ حکیم صاحب کے اطمنانی الفاظ کو باور کرتے ہوئے مکان میں جا کر جس وقت دوا کے قطرات آنکھوں میں ٹپکائے، ناقابل برداشت تکلیف پیدا ہوئی، اور حضور دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھے ہوئے باہر تشریف لائے اور بیتابانہ حکیم صاحب سے فرمایا: اب تو اجزا بتا دیجیے مجھے سخت تکلیف ہے، حکیم صاحب نے منجملہ دیگر ادویات کے عرق لیمو کا بھی نام لیا۔ جسے سن کے حاضرین چونک پڑے، حضور نے فرمایا: آنکھ میں اور نیبو کا عرق ؟؟ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم۔ پھر فرمایا: حکیم صاحب آنکھ جیسی نازک چیز اور ایسا تیز عرق۔ (حیات اعلیٰ حضرت، جلد اول، صفحہ ۷۱)
پہلا فتویٰ: سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پہلا فتویٰ تیرہ سال، دس مہینہ، چار دن کی عمر میں تحریر فرمایا جو کہ رضاعت کے تعلق سے تھا، حضور اعلیٰ حضرت اپنے پہلے مسئلہ رضاعت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: کہ یہ وہی فتویٰ ہے جو ۱۴ شعبان المعظم ۱۲۸۶ھ کو سب سے پہلے اس فقیر نے لکھا، اور اسی ۱۴ شعبان ۱۲۸۶ھ کو منصب افتا عطا ہوا، اور اسی تاریخ سے بحمد اللہ تعالیٰ نماز فرض ہوئی اور ولادت ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ روز شنبہ وقت ظہر مطابق ۱۴ جون ۱۸۵۶ء جیٹھ سدی ۱۹۱۳ سمبت کو ہوئی، تو منصب افتا ملنے کے وقت فقیر کی عمر ۱۳ برس ۱۰ مہینہ چار دن تھی، جب سے اب تک برابر یہی خدمت دین لی جا رہی ہے۔ والحمدللہ (ایضاً)
سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ تیرہ سال کی عمر سے فتویٰ نویسی کا کام انجام دے رہے ہیں، اور یہ مبارک و مسعود سلسلہ آپکی عمر شریف کے اخیر تک جاری و ساری رہا، افسوس کہ آپکے بہت سے فتویٰ کی نقل نہ لی جا سکی، مگر پھر بھی جو نقل ہو سکی وہ بہت بڑی تقریباً 12 جلدوں (قدیم) پر تقریباً بارہ ہزار صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، اس مجموعہ کا نام “فتاویٰ رضویہ” ہے، اس عظیم کتاب میں آپنے مسائل شرعیہ کی توضیح و تشریح ایسی عمدہ تحقیق کے ساتھ فرمائی کہ رہتی دنیا تک اُس کی مثال نہیں، فقہی مسائل کے لیے دلائل کے انبار لگا دیے۔ جس سے دنیا آج بھی فیضیاب ہو رہی ہے۔
دین کے مجدد کے لیے جس قدر قرآن و حدیث کے علوم میں تحصیل عبور کی ضرورت ہوتی ہے، اُس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلیٰ حضرت کو قرآن و حدیث میں عبور عطا فرمایا تھا، الغرض اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی پایہ اتنا بلند ہے کہ اکابرین فرماتے ہیں کہ گزشتہ دو صدیوں ۱۲۰۰ اور ۱۳۰۰ کے اندر کوئی ایسا جامع عالم نظر نہیں آتا، اپنوں کی تو بات ہی نہیں مخالفین بھی اعلیٰ حضرت کے علم کا لوہا مانتے تھے، سیدی سرکار اعلیٰ حضرت کے صرف نام میں ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبی عطا فرمائی کہ آپ کا فقط نام ہی حق و باطل کے مابین فرق کر دیتا ہے، علماء فرماتے ہیں: کہ آپ سے محبت رکھنا یہ سنیت کی علامت ہے اور آپ سے بغض و عناد رکھنا بد دین ہونے کی پہچان ہے، ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت مولانا سہسرامی کو تقریر کے لیے بلایا، تقریر کے بعد جب کھانا کھانے کے لئے حضرت مولانا بیٹھے تو کسی نے سوال کر لیا کہ حضرت سنی اور وہابی میں کیا پہچان ہے کوئی ایسی بات بتائیے کہ ہم لوگ بھی سنی اور وہابی کو پہچان سکیں، تو مولانا موصوف نے فرمایا: کہ آپ لوگوں کو ایسا آسان اور کھرا قاعدہ بتا دیتا ہوں کہ اس سے اچّھا قاعدہ ملنا مشکل ہے، آپ لوگ جب کسی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیں کہ سنی ہے یا وہابی ہے، تو اس کے سامنے سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تذکرہ چھیڑ دیجئے، اور اس کے چہرے کو بغور دیکھیے، اگر چہرے پر بشاشت اور خوشی کے آثار دکھائی پڑیں، تو سمجھ لیجئے کہ سنی ہے اور اگر چہرے پر پزمردگی کدورت دیکھنے کو ملے تو سمجھ جائیے کہ وہابی ہے اور اگر وہابی نہیں تب بھی اس کے اندر کسی طرح کی بے دینی ضرور ہے۔ (ماخوذ از سوانح امام احمد رضا)
غرض کہ حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہر محاذ پر آپ نے باطل اور فتنہ پرور لوگوں اور جماعتوں کا تن تنہا، تصنیف و تالیف، تقریر و بیان کے ذریعہ ڈٹ کر مقابلہ کیا، اگر ہم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی بے مثال علمی اور تحقیقی خدمات کو ان کی 65 سالہ زندگی پر تقسیم کریں تو ہر پانچ گھنٹے میں اعلیٰ حضرت اس امت کو ایک کتاب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، اپنا مشن پورا کر کے اس مرد مجاہد نے ٢٥ صفر المظفر ١٣٤٠ھ مطابق ١٩٢١ء بروز جمعہ دو بج کر ٣٨ منٹ پر، عین اذان جمعہ کے وقت داعی اجل کو لبیک کہا۔
انا للّہ واناالیہ راجعون
ربِّ کریم ہم سب کو حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فیضان سے مالا مال فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
No Comments: