مدیر کے قلم سے
ارشد فریدی
سیاسی لیڈروں کی مقبولیت وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، سیاست میں کوئی بھی اصول،جذبہ،سہولت اور سیاسی چالبازی مستقل نہیں رہتا۔ حالیہ دنوں میں سیاسی گلیاروں میں ممبران اسمبلی کو جس طرح سے اسمبلی انتخابات کے ٹکٹ دیے گئے ہیں اس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک طرف عوام سوال پوچھ ر ہی ہے تو دوسری طرف متعلقہ علاقے کے ممکنہ ایم ایل اے امیدوار بھی حیران ہیں کہ ان کی محنت کا پھل کسی اور کو کیوں ملے؟ بی جے پی نے مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کے لیے تقریبا چھ امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔
دوسری طرف راجستھان میں بھی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے چار اراکین پارلیمنٹ کو راجستھان کی کسی بھی سیٹ سے بھی امیدوار بنانے پر غوروخوض کررہی ہے،جہاں تک چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں امیدوار اتارنے کی بات ہے تو بی جے پی وہاں کے لیے بڑے پیمانے پر لائحہ عمل تیار کررہی ہے اور وہاں بھی قدآور لیڈروں کو ہی میدان میں اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے اتارنے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔زمینی سطح پر جڑے لیڈروں کو بی جے پی ٹکٹ دینے سے کترارہی ہے،اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ شکست کا خوف بی جے پی کے دل ودماغ پر کس طرح حاوی ہوگیا ہے۔
دراصل 25 ستمبر کو مدھیہ پردیش کی سیاست میں دو طرح کے واقعات رونما ہوئے۔ سب سے پہلے، وزیر اعظم نریندر مودی نے بھوپال کے جمبوری گراؤنڈ میں لاکھوں کارکنوں سے خطاب کیا،پرانے انداز میں ہی انہوں نے ایک بار پھر کانگریس پر جم کر برسے۔ دوسری طرف دیر شام، نئی دہلی میں بی جے پی کے مرکزی دفتر سے مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کے لیے دوسری فہرست جاری کی گئی جس میں کچھ مرکزی وزراء اور ممبران پارلیمنٹ کو مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں امیدواری کے طور پر ناموں کا اعلان کیا گیا۔
اراکین پارلیمنٹ کو اسمبلی انتخابات کا ٹکٹ دینے کے اعلان کے بعد دہلی کے دین دیال اپادھیائے مارگ سے لے کر بھوپال کی شیاملا کی پہاڑیوں تک کئی طرح کے سیاسی آواز اٹھنے لگے۔ علاقائی لیڈروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگی،زمینی سطح پر جڑے امیدواروں کے حواس فاختہ ہونے لگے،ذہنوں میں سوالات ہی سوالات اٹھنے لگے،آگے کیا ہوگا؟ کیا وزیراعلیٰ کا چہرہ بدل جائے گا؟ کیا انتخابی نتائج کے بعد کیلاش وجے ورگیہ، نریندر سنگھ تومر، پرہلاد پٹیل، فگن سنگھ کلستے جیسے لیڈروں کو وزیر اعلی بنایا جائے گا؟ کیا یہ اسمبلی انتخابات شیوراج سنگھ چوہان کو آخری مرتبہ وزیراعلیٰ بنانے کے لیے بی جے پی اعلیٰ قیادت کسی بھی سرحد کو عبور کرسکتی ہے۔ایسے کئی سوالات پارٹی کارکنوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں،ظاہر ہے کہ مدھیہ پردیش کی عام عوام بھی بی جے پی کے اس فیصلے سے حیران وششدر ہے۔
اس دوران بھوپال کے جمبوری گراؤنڈ میں جس طرح سے لاکھوں لوگوں کا ہجوم دیکھا گیا اور وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا اور جلسہ گاہ میں موجود عام وخواص سے تالیاں بجوائیں اس سے ایسالگتا ہے کہ بی جے پی اسمبلی انتخابات میں بھی وزیر اعظم مودی کے نام پر ہی ووٹ مانگے گی،علاقائی لیڈروں کے نام پر ووٹ مانگنے سے بی جے پی کترارہی ہے۔
وزیراعظم کے بیانات سے تو یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ مدھیہ پردیش کی عوام شیوراج سنگھ چوہان اور ان کے حالیہ ممبران اسمبلی کو درکنار کرکے وزیراعظم کے نام پر ہی ووٹ دینے کے لیے ایک بار پھر تیار ہے۔
انتخابی جلسے سے وزیراعظم نے ریاست کی خواتین اور نوجوانوں کی بارے میں بات کی اور انہوں نے ’ایم اور ’وائی‘کا نیافارمولا بھی جلسہ گاہ میں موجود لوگوں دیا۔
انہوں نے فارمولا کا مطلب سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’ایم‘ کا مطلب خواتین اور’وائی‘ کا مطلب ہے ان کے لیے چلائی جانے والی اسکیمیں۔ وہ اسکیمیں جن سے معاشرے میں مثبت ترقی ہوئی ہے۔ محروموں کو بااختیار بننے کا موقع ملا ہے۔
اسی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ بھیڑ، یہ جوش، یہ کارکنوں کا مہاکمبھ، یہ عظیم سنکلپ… بہت کچھ کہتی ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ مدھیہ پردیش کے من میں کیا ہے، یہ بی جے پی کو نئی توانائی سے بھرا ہوا ظاہر کرتا ہے، یہ بی جے پی اور بی جے پی کے ہر کارکن کے بلند حوصلے کو ظاہر کرتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے 20 سال پورے کر لیے ہیں۔ جو نوجوان اس بار پہلی بار ووٹ ڈالیں گے وہ خوش قسمت ہوں گے کہ انہوں نے صرف بی جے پی کی حکومت دیکھی ہے نہ کہ کانگریس کی حکومت،بدعنوانی اور غلط حکمرانی کانگریس کی پہچان تھی۔
وہیں دوسری طرف بی جے پی کی دوسری فہرست میں 39 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ زیر بحث مرکزی وزراء اور پارٹی جنرل سکریٹری کے ناموں کا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ طویل عرصے سے مرکزی سیاست میں سرگرم تھے۔ انہیں کئی ریاستوں کے انتخابی انتظام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اب اسے مدھیہ پردیش کی سیاست میں ان کی دوسری اننگز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، مرکزی وزراء نریندر سنگھ تومر، فگن سنگھ کلستے، پرہلاد پٹیل کے الیکشن لڑنے کے بارے میں عوام کے دل ودماغ میں بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ عوام اس بات کا جواب تلاش کر رہی ہے کہ رکن اسمبلی راکیش سنگھ اور امرتی دیوی کو اسمبلی میں کیوں اتارا گیا۔
دراصل عوام چہرہ دیکھ کر اور نام سن کر بور ہو جاتی ہے، بی جے پی سے تعلق رکھنے والے شیوراج سنگھ چوہان گزشتہ 18 سالوں سے مدھیہ پردیش کی کرسی پر براجمان ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان کے خلاف اینٹی انکمبینسی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ اگر بی جے پی کے لیڈر انتخابی پلیٹ فارموں پراسے قبول نہیں کرتے ہیں، تو وہ اپنی باہمی گفتگو میں اس سے پوری طرح انکار نہیں کرتے۔ شیوراج سنگھ حکومت کی تقرری کو لے کر پچھلے 3 سالوں میں بھوپال سے لے کر دہلی تک کئی طرح کی بحثیں ہوئیں۔ ایسے میں بی جے پی نے جوا کھیلا ہے کہ ریاست کے تمام بڑے لیڈروں کو اسمبلی انتخابات میں امیدوار بنا کر میدان میں اتارا جائے۔
بڑے مرکزی لیڈروں کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے سے یہ تاثر گیا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت اب صرف وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان پر انحصار نہیں کرے گی۔ تنظیم سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کسی بھی رہنما کے نام پر غور کرے گی جس کی اپنے علاقے میں بہتر کارکردگی ہو گی۔ پارٹی نے ہمیشہ تبدیلی کو قبول کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے انتخابی سیاست میں سب کو حیران کر دیا ہے، اسی لیے اس بار بھی انہوں نے دوسری فہرست میں حیران کر دیا ہے۔ تاہم مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کے اس میں ایک سیاہ گھوڑے کے کردار کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ راجستھان سے گجیندر سنگھ شیخاوت، کیلاش چودھری، ارجن رام میگھوال سمیت مرکزی ایم پی راجیہ وردھن راٹھوڑ کے الیکشن لڑنے کے بارے میں دہلی سے جے پور تک بات ہو رہی ہے۔
No Comments: