قومی خبریں

خواتین

ججوں کی تقرری کے عمل میں تبدیلی کا فیصلہ

فائلوں میں درج اطلاعات کے بجائے امیدواروں کی اہلیت اور شخصیت کو سمجھنا ضروری

سپریم کورٹ کالجیم نے ہائی کورٹ کے ججوں کے ساتھ بات چیت کرکے ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے۔ کالجیم کا ماننا ہے کہ ججوں کی تقرری کے لیے فائلوں میں درج اطلاعات کے بجائے امیدواروں سے ذاتی طور پر بات چیت کے ذریعہ ان کی اہلیت اور شخصیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
یہ پہل روایتی عمل سے ہٹ کر عدالتی تقرریوں میں شفافیت اور اعتماد کو بڑھاوا دینے کی سمت میں ایک نئی شروعات مانی جا رہی ہے۔ غور طلب ہے کہ یہ قدم تب اٹھایا گیا جب الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس شیکھر یادو کے متنازعہ بیانات کو لے کر عدلیہ پر سنگین خدشات پیدا ہوئی ہیں۔
اس سلسلے میں چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور دیگر اراکین جسٹس بھوشن آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی رکنیت والی سپریم کورٹ کالجیم نے راجستھان، الٰہ آباد، اور بامبے ہائی کورٹ کے لیے نامزد عدالتی افسروں اور وکیلوں سے ملاقات کی۔ کالجیم کا ماننا تھا کہ فائلوں میں درج اطلاعات کے بجائے امیدواروں سے ذاتی طور پر بات چیت کے ذریعہ ان کی اہلیت اور شخصیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
17 دسمبر کو کالجیم نے جسٹس یادو سے ملاقات کی اور ان کے بیانات پر چرچا کی۔ چیف جج نے انہیں پھٹکار لگاتے ہوئے عدالتی غیر جانبداری بنائے رکھنے اور آئین کے اصول پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ حالانکہ جسٹس شیکھر یادو کے مستقبل کو لے کر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کے تبادلے اور جانچ کو لے کر تلوار لٹکی ہوئی ہے۔
کالجیم کے ذریعہ کی گئی یہ پہل عدالتی عمل کو زیادہ شفاف اور غیر جانبدار بنانے کی کوشش ہے۔ یہ روایت 2018 میں اس وقت کے سی جے آئی دیپک مشرا کی مدت کار میں شروع ہوئی تھی لیکن بعد میں اسے بند کر دیا گیا تھا۔ اب اسے پھر سے شروع کرتے ہوئے کالجیم نے ذاتی طور پر بات چیت کے توسط سے ججوں کی تقرری کے عمل کو نئی سمت دی ہے اور اس کے مثبت نتائج کی امید کی جا رہی ہے۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *