:نئی دہلی
اتر پردیش اے ٹی ایس کی جانب سے دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت دو مختلف مقدمات میں گرفتارگیارہ مسلم نوجوانوں کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کا لکھنؤ ہائی کورٹ نے آج تاریخی فیصلہ صادر کیا۔ لکھنؤ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس عطاء الرحمن مسعودی اور جسٹس منیش کمار نگم نے 16/ اپریل کو ضمانت عرضداشتوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ آج جسٹس عطاء الرحمن مسعودی نے فیصلہ صادر کیا۔ یو اے پی قانون کی دفعہ 43(d) کی خلاف ورزی کرنے پر ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت منظور کی گئی۔ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں کہا کہ تفتیشی ایجنسی نے متعینہ مدت میں چارج شیٹ عدالت میں داخل نہیں کی او ر تفتیش کے لئے اضافی وقت طلب کرتے وقت ٹرائل کورٹ نے ملزمین کے اعتراضات کی سماعت نہیں کی تھی جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر ملزمین کی ضمانت منظور کی جس کی وجہ سے یو پی اے ٹی ایس کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہاکہ لکھنوہائی کورٹ کے فیصلہ کا استقبال کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان معنوں میں یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے کہ متعینہ مدت کے اندرچارج شیٹ داخل نہیں کرنے کے سبب ملزمین کو ضمانت دیدی گئی، انہوں نے کہا کہ ہم 18ماہ بعد ان 11افراد کے رہائی کا خیرمقدم کرتے ہیں، ملزمین کے اہل خانہ کے لئے بلاشبہ یہ انتہائی خوشی کاموقع ہے کہ یہ ساعت طویل انتظارکے بعد آئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مولانا مدنی نے اس امر پر سخت مایوسی کا اظہارکیا کہ اس طرح کے معاملہ میں پولس اورتفتیشی ایجنسیاں جان بوجھ کر رخنہ ڈالتی ہے، اور چارج شیٹ پیش کرنے میں ہیلوں اوربہانوں کا سہارالیتی ہے انہوں نے آگے کہا کہ قانون میں یہ التزام موجودہے کہ نوے دنوں کے اندرچارج شیٹ پیش کردی جانی چاہئے، لیکن اس طرح کے زیادہ ترمعاملوں میں اس قانونی التزام سے روگردانی کرتے ہوئے دھڑلے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں جیساکہ اس معاملہ میں ہوا، اترپردیش اے ٹی ایس نوے دنوں کے اندرجب چارج شیٹ نہیں پیش کرسکی تو اس نے نچلی عدالت سے مزید نوے دنوں کی مہلت حاصل کرلی، مولانا مدنی نے کہا کہ جان بوجھ کر ایسا کیاجاتاہے تاکہ ملزمین کو جلد ضمانت نہ مل سکے اورانہیں زیادہ عرصہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھاجاسکے، اس معاملہ میں جنہیں گرفتارکیا گیا ان کاتعلق سہارنپوراورمظفرنگر علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں،، مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں بے پناہ خوشی ہے کہ جمعیۃعلماء قانونی امدادکے نتیجہ میں لکھنوہائی کورٹ سے ان نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی ممکن ہوئی لیکن یہ افسوسناک سوال بہرحال موجودہے کہ پولس اوردوسری تفتیشی ایجنسیاں اس طرح کے معاملوں میں ایمانداری اورفرض کامظاہرہ کرنے کی جگہ آخرکب تک جانبداری اورتعصب کا مظاہرہ کرتی رہیں گی؟ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ کسی بی شہری کو انصاف کے حصول سے دانستہ محروم رکھنے کی کوشش کی جائے دہشت گردی سے جڑے بیشتر معاملوں میں اسی طرح کارویہ اپنایاجاتا ہے،ہم مسلسل اس سنگین ناانصافی کے خلاف آوازاٹھارہے ہیں مگر افسوس پولس اورتفتیشی ایجنسیوں کی کوئی جواب دہی طے نہیں کی جاتی چنانچہ وہ بے خوف ہو کر قانون کے نام انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کررہی ہیں، انہوں نے آخرمیں کہا کہ یہ امید افزابات ہے اورپہلی بارایسا ہواہے کہ جب متعینہ مدت کے اندرچارج شیٹ داخل نہیں
No Comments: