یوم وصال 6 ذیقعدہ 1439ھ
مفتی محمد سلیم مصباحی قنوج
اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسان کی ہدایت کے لیے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور ساتھ ساتھ مقدس آسمانی کتب و صحائف بھی نازل فرمائے، لیکن ختم نبوت کے بعد اسلام کی تزویج و اشاعت اور مسلمانوں کی ایمان و عقیدے کی حفاظت کی ذمہ داری حسب ترتیب صحابہ کرام، اولیاء، علماء کے سر آ گئی۔ جنہوں نے اپنی علمی و عملی کوششوں سے انسانوں کو شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ رکھا۔چودویں صدی میں دیوبندیت و نجدیت کے مکر و فریب سے جس ذات نے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کی، اسی ذات کی نسل سے ایک مقدس ہستی عمدۃ المحدثین، سیدالمحققین، حامی سنن، ماحی بدع وفتن، آئینہ ذات رضا، وقت کے بوحنیفہ، وارث علوم اعلیٰ حضرت، نبیرۂ حضورحجۃ الاسلام، جانشین حضورمفتی اعظم ہند، جگر گوشہ مفسراعظم، شیخ الاسلام والمسلمین، قاضی القضاۃ، تاج الشریعہ، بدرالطریقہ حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمداختررضاخان قادری ازہری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے کہ جنہوں نے اپنی علمی و عملی صلاحیتوں سے دور حاضر میں صلح کلیت کے فتنہ سے تمام مسلمانان اہلسنت کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کی ہے۔
ولادت باسعادت:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 14ذیقعدہ 1361ھ مطابق 23 نومبر 1942ء بروز منگل ہندوستان کے مشہور شہر بریلی شریف کاشانہ رضا محلہ سوداگران میں ہوئی۔
نام ونسب:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کا پیدائشی نام محمد ہے، اسی نام پر عقیقہ ہوا۔ والد ماجد محمد ابراہیم رضا نے اپنے نام مناسبت سے محمد اسماعیل رضا رکھا، عرفیت اختررضا ہے، اور تخلص اختر استعمال فرماتے تھے۔القاب تاج الشریعہ، جانشین حضور مفتی اعظم ہند،شیخ الاسلام والمسلمین۔
آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے: حضرت محمد اختر رضا بن محمد ابراہیم رضا بن حامد رضا بن امام احمد رضا خاں قادری علیہم الرحمہ
تعلیم و تربیت:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کی عمر شریف جب 4 سال 4 ماہ اور 4 دن ہوئی تو آپ کے والد ماجد مفسر اعظم ہند حضرت ابراہیم رضا خاں جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی۔ اس تقریب سعید میں یاد گار اعلیٰ حضرت دارالعلوم منظر الاسلام کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ نانا جان تاجدار اہلسنت سرکار مفتی اعظم ہند محمدمصطفی رضاخاں نوری نے ادا کرائی۔حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے ناظرہ قرآن کریم اپنی والدہ ماجدہ شہزادی مفتی اعظم سے گھر پر ہی ختم کیا،والدماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والد بزرگوار نے دارالعلوم منظرالاسلام میں داخل کرا دیا، درس نظامی کی تکمیل آپ نے منظر الاسلام سے کی۔ اس کے بعد 1963ء میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا جامعۃ الازہرقاہرہ،مصرتشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا اور مسلسل تین سال تک جامعہ ازہر، مصر کے فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔حضور تاج الشریعہ 1386ھ مطابق 1966ء میں جامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر آپ کو اس وقت کے مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے جامعہ ازہر ایوارڈ پیش کیا اور ساتھ ہی سند سے بھی نوازے گئے۔(مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء)
اساتذہ کرام:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفےٰ رضاخاں نوری بریلوی، بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری،مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی،فضیلت الشیخ علامہ محمد سماحی،شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر قاہرہ، حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار،استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ، ریحان ملت،قائداعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء)
عقد مسنون و اولاد:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کا عقد مسنون شعبان المعظم 1388ھ مطابق 3 نومبر 1968ء بروز اتوار کوحکیم الاسلام مولانا حسنین رضا بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کی دختر نیک اخترکے ساتھ محلہ کا نکر ٹولہ شہر کہنہ بریلی میں ہوا۔آپ کے ایک صاحبزادے حضرت مولانا عسجد رضا قادری بریلوی اور پانچ صاحبزادیاں ہیں۔
درس وتدریس:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے درس وتدریس کی ابتدا 1968ء میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے کی۔1987ء میں دارالعلوم کے صدر المدرس اور رضوی دارالافتاء کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ درس و تدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہا لیکن آپ کی کثیر مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکا۔ لیکن آج بھی آپ مرکزی دارالافتاء بریلی شریف میں تخصص فی الفقہ کے علمائے کرام کو رسم المفتی،اجلی الاعلام اور بخاری شریف کا درس دیتے ہیں۔
بیعت وخلافت:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتی اعظم سے حاصل ہے۔ سرکار مفتی اعظم ہند نے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کا شرف عطا فرمادیا تھا اور صرف 19 سال کی عمر میں 15 جنوری 1962ء 1381ھ کو تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفی برکاتی مارہروی،احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی ،والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے۔تجلیات تاج الشریعہ)
بارگاہ مرشد میں مقام:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے مرشد برحق،شہزادہ اعلیٰ حضرت تاجدار اہلسنت امام المشائخ مفتی اعظم ہند ابو البرکات آل رحمٰن حضرت علامہ مفتی محمد مصطفی رضاخاں نوری کی بارگاہ میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ سرکار مفتی اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ سے بچپن ہی سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جس کا اندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایا جاسکتاہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے:” اس لڑکے(حضور تاج الشریعہ) سے بہت اُمید ہے”۔ سرکار مفتی اعظم ہند نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے فرمایا: اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں، یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے، اب تم اس کام کو انجام دو، میں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ لوگوں سے مخاطب ہو کر مفتی اعظم نے فرمایا: آپ لوگ اب اختر میاں سلمہ، سے رجوع کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں۔ حضور مفتی اعظم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضور تاج الشریعہ کوتحریراً اپنا قائم مقام و جانشین مقرر فرمایا تھا۔
سفر حج وزیارت:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ چھ مرتبہ حج وزیارت سے سرفراز ہوئے چنانچہ آپ نے پہلا حج 1403ھ مطابق 4 دسمبر 1983ء/ دوسرا حج 1405ھ مطابق1985ء/تیسرا حج 1406ھ مطابق 1986ء/چوتھا حج 1429ھ مطابق 2008ء /پانچواں حج 1430ھ مطابق 2009ء/چھٹا حج 1431ھ مطابق 2010ء میں کیا۔
وصال و مدفن:
٭ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 6 ذیقعدہ 1439ھ مطابق 20 جولائی 2018ء بروز جمعہ وقت اذان مغرب 75 سال 5 ماہ 18 دن کی عمر پاکر محلہ سودا گران بریلی شریف میں ہوا۔آپ کی نماز جنازہ 8 ذیقعدہ 1439ھ مطابق 22 جولائی 2018ء بروز اتوار 11 بجے دن اسلامیہ انٹر کالج بریلی میں آپ کے شہزادہ و جانشین علامہ عسجد رضا قادری نے 70 لاکھ کے مجمع کے ساتھ پڑھائی۔ درگاہ اعلیٰ حضرت کی پیچھم جانب واقع ازہری گیسٹ ہاؤس میں مدفون ہوئے۔
No Comments: