غالب انسٹی ٹیوٹ میں تقریبات کا افتتاح 20دسمبر کی شام کو ہواتھااور آج 22دسمبر کو یہ مکمل ہوگئیں۔ 22دسمبر کو بین الاقوامی سمینار کے تین اجلاس ہوئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کی۔ اس موقع پر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہاکہ غالب تقریبات کا انتظارہم سال بھر کرتے ہیں۔ پوری اردو دنیا کی نظریہاں کے بین الاقوامی سمینا رپر ہوتی ہیں، اس لےے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس زیادہ ہونا چاہےے۔ اس اجلاس میں جناب امیر مہدی نے ’غالب کا تفکر‘ ، جناب سیفی سرونجی نے ’غالب اور تصوف‘ اور ڈاکٹر احسان حسن نے ’سوالوں کا شاعر غالب‘ پیش کیا۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر حنبل رضا نے کی۔ دوسرے اجلاس کے صدر جناب ظہیر انور نے اپنی تقریر میں کہاکہ تنہائی ہر تخلیق کارکاسب سے قیمتی سرمایہ ہے لیکن یہی اس کا کرب بھی ہے۔ ہر شخص کی تنہائی اپنا منفرد مفہوم رکھتی ہے۔ غالب کے یہاں جس اندازمیں یہ احساس ظاہر ہوا اس کی مثال غالب سے پہلے نظر نہیں آتی۔ اس اجلاس میں پروفیسر انیس اشفاق نے ’کلام غالب میں نثریت‘، پروفیسر سرورالہدیٰ نے ’فریاد کی کوئی لے نہیںہے‘ اور ڈاکٹر جاویدنجارنے ’غالب کا ہے انداز بیاں اور‘ کے موضوع پر مقالات پیش کےے۔ آخری اجلاس کا صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر خالد محمود نے کہاکہ علمی مذاکروں کا فیضان یہ ہے کہ یہاں بہت سارے مقالہ نگاراپنے مطالعے کا نچوڑ پیش کرتے ہیں اس طرح ہم چند لمحوں میں بہت ساری کتابوں کامطالعہ کرلیتے ہیں۔ اس لحاظ سے سمیناروں میں شرکت بڑے فائدے کاسودا ہے۔اس اجلاس میں پروفیسر مظہرمہدی نے ’1857کی بغاوت غالب کا غم اور ان کی ہمدردی‘، ڈاکٹر شاہد پٹھان نے ’تنقید غالب کی تازہ تمثیل،غالب نئی تشکیل‘، اور ڈاکٹر خالد مبشرنے ’کلام غالب میں مسلمات کی ردوقبول کی آویزش‘ کے موضوع پر مقالات پیش کےے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہاکہ بین الاقوامی غالب تقریبات میں مقالہ نگاروں اور شرکاکی شرکت ہمیں نئی توانائی عطا کرتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آئندہ بھی آپ کا تعاون اسی طرح برقرار رہے گا۔ پروفیسر انیس اشفاق نے کہاکہ غالب تقریبات میری زندگی کے معمول کاحصہ ہے اگرمیں اس میں شریک نہ ہوسکوں تو شاید ان دنوں جب یہ منعقد ہورہی ہوگی میں رات کو سو نہ سکوں گا۔ اس سمینار نے ایک پوری نسل کی تربیت کی ہے۔میری کئی تحریریں اس سمینار کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ پروفیسر شہزاد انجم نے کہاکہ غالب کا سرمایہ ¿ شعر دوسرے بہت سے شعراکے مقابلے میں مختصر ہے لیکن یہ ایسا سرچڑھ کے بولتاہے کہ دوسرا کوئی شاعر اس کے مقابلے نہیں ٹھہر سکتا۔ غالب تقریبات نے غالب کی انہیں امتیازی خصوصیات کو واضح کیا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرادریس احمد نے تمام شرکاکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہر سال کسی اہم موضوع پر سمینار منعقد کرتاہے اور اس کے پیچھے منصوبہ یہی ہوتاہے کہ غالب اور تمام ادبی سرمایہ پر نئے سرے سے غور کیا جائے۔ سمینار کے بعد اردو ڈرامہ ’نظیر کتھاکیرتن‘ پیش کیاگیا۔ اس کے ڈائرکٹر جناب رجنیش بشٹ تھے
No Comments: