نئی دہلی : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی ادارے کا درجہ رہے گا یا نہیں، اس معاملے پر آٹھ دن تک سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل سات ججوں کی آئینی بنچ اس کیس کی سماعت کر رہی ہے۔
عدالت اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ اے ایم یو کو آئین ہند کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ دیا جانا چاہئے یا نہیں۔ 12 فروری 2019 کو عدالت عظمیٰ نے اس متنازع معاملے کو سات ججوں کی بنچ کو بھیج دیا تھا۔ اسی طرح کا ایک حوالہ 1981 میں بھی دیا گیا تھا۔ 1967 میں ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا تھا کہ چونکہ اے ایم یو ایک سینٹرل یونیورسٹی ہے، اس لئے اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ حالانکہ جب پارلیمنٹ نے 1981 میں اے ایم یو (ترمیمی) ایکٹ پاس کیا، تو اس باوقار ادارے نے اپنا اقلیتی درجہ دوبارہ حاصل کر لیا۔
جنوری 2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 1981 کے قانون کی شق کو ختم کر دیا جس نے یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دیا تھا۔ مرکز میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ یونیورسٹی نے اس کے خلاف علاحدہ درخواست بھی دائر کی تھی۔
No Comments: