محمد فرمان اویسی جامعیؔ
یہ روشن وتابناک دَورجسے عقل وخردکازمانہ کہاجاتاہے، جہاں اُس نے ذہن وفکرکونئی روشنی اورجدیداُجالے دیے ہیں وہیں روح کے بعض گوشوں کودبیزتاریکی اور گھنگور اندھیرا بھی دیا۔ اتنی گہری تاریکی کہ نئی روشنی کے ذہن ومزاج کے لئے خداکا وجود مشکوک ہوگیا۔ رسولوں کی بے غباررسالت پرشکوک وشبہات کی گردغبارڈال دی گئی۔ اولیاء اللہ کی کرامتیں عہدِماضی کے قصّے قراردیے گئے۔ انسانیت کواس تاریک ترین ماحول سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ قدم قدم پرروحانیت کی مشعلیں روشن کی جائیں، شمعیں جلائی جائیں اورچراغ راہِ منزل کااُجالاکیاجائے۔ تاکہ عہدِجدیدکی مادّی تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگ اس شمع ہدایت کی رشنی میں اپنی منزل کانشان تلاش کرسکیں۔
ختم نبوت کے بعدسے آج تک علماء، صلحاء اوراولیاء کی مقدس جماعت نے دین متین کی اشاعت کے فرائض انجام دیئے ہیں اوراسی محترم جماعت نے کفروالحاداوربدمذہبیت کے تاریک ترین دَورمیں اسلام کی روشنی اوردین کااُجالاپھیلاہے۔ سچ پوچھئے توہمارے ملک ہندوستان میں اولیاء اللہ اوران کی کرامتوں نے اسلام کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے۔ راجستھان کی خشک پہاڑیوں کے دامن سے لے کربنگال کی مرطوب سرزمین تک جہاں کہیں اسلام کوفروغ ہواوہ اُنہیں اصحابِ کرامت بزرگوں کے طفیل اورصدقے میں ہوا۔ اولیاء اللہ کی کرامتیں دِلوں کے سیاہ زخم پرچلانے کاایک تیزنشتراورکفرکاسینہ چاک کرنے کاایک عظیم خنجرہے۔ اگرعطائے رسول، حضرت خواجہ غریب نوازکی مبارک نعلین فضامیں پروازکرنے والے کاتعاقب نہ کرتی توشایدجوگی جے پال جیساساحر اِس قدرجلدمسلمان نہ ہوتا۔ اولیاء اللہ کی کرامتوں نے نہ جانے کتنے گمراہوں کوراہِ حق دکھایا۔ ہدایتوں سے ہمکنارکیا اورصراط مستقیم کی راہ دکھائی اوررہتی دنیاتک دکھاتی ہی رہے گی۔ عہدحاضرکی لائق صدتکریم ذات اورقدم قدم پرعقیدتوں کے پھول نچھاو رکئے جانے والی عظیم شخصیت ہے رازیٔ دَوراں، غزالی ٔزماں، عمدۃ المحدثین، سیدالمحققین، حامی سنن، ماحی ٔ بدع وفِتن، آئینۂ ذاتِ رضا، وقت کے بوحنیفہ، وارث علو م اعلیٰ حضرت، نبیرۂ حضورحجۃ الاسلام، جانشین حضورمفتی اعظم ہند، جگرگوشۂ مفسراعظم، شیخ الاسلام والمسلمین، قاضی القضاۃ، تاج الشریعہ، بدرالطریقہ حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمداختررضاخان ازہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی، جن کی زندگی کاایک ایک لمحہ اورحیات مقدسہ کی ایک ایک ساعت سرمایۂ سعادت اوردولتِ افتخار ہے۔ جن کی ساری عمرشریعت کاعلم پھیلاتے اورطریقت کی راہ بتلاتے گزری اورجن کی زندگی کاایک ایک عمل شریعت کی میزان اورطریقت کی ترازو پرتولاہواہے۔
اس دورمیں خودممدوح کی شخصیت مسلمانانِ عالم کے لئے سرمدی سعادتوں کی ضمانت ہے۔ آپ کی شخصیت بڑی منفرد اور مثالی شان کی ہے۔ آپ کے زریں کارنامے آپ کوکبھی فراموش نہیں کریں گے بلکہ تاقیام قیامت زندہ رکھیں گے۔ آپ کے ز ہدوتقویٰ، خوف خدا، توضع وانکساری، شگفتہ مزاجی، عمدہ اخلاق وعادات، سیاسی وسماجی روشن خدمات، ملکی غیرملکی وعلاقائی حسن معاشرت کی وجہ سے یادرہتی دنیاتک رہے گی۔ یوں توآپ کی حیات کاہرگوشہ قابل رشک ہے مگر”جامعۃ الرضابریلی شریف ”عظیم یونیورسیٹی ان کاایسایادگاری کارنامہ ہے جودنیاوی شہرت اورتوشۂ آخرت کے لئے متاع گراں مایہ ہے۔
حضورتاج الشریعہ کی مشکل پسندطبیعت نے دینی اورملی کام کے لئے ہمیشہ ایسی وادیوں کاانتخاب کیاجہاں صرف جنون عشق ہی کام آسکتاتھاوہ راہ کی دشواریوں کو حوصلہ شکنی کا سبب نہیں بلکہ حصول منزل کاذریعہ بناتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آبلہ پائی اُنہیں سرگرم سفررکھتی تھی۔ آپ ایک ایسے ہمہ جہت عالم دین تھے کہ دوردُورتک ان کاکوئی مماثل نظرنہیں آتا۔ حیات کاوہ کون ساگوشہ ہے جس سے یہ مردخداآگاہ وخودآگاہ جہت آشنانہ ہو۔ قوم مسلم کی اصلاح وتربیت اوران کے تزکیۂ نفس کے لئے آپ نے ہرجہت سے اپنے تحریکی وتبلیغی عمل کوجاری رکھا۔ قوم مسلم میں فکراسلامی کی صحیح اسپرٹ پیداکرنے کے لئے خطابت وقلم کی خدادادصلاحیتوں کاخوب خوب استعمال کیا۔
آپ عالمی سطح پرقائدکی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ آپ اعلیٰ حضرت کے نبیرہ اورحضورمفتی اعظم ہندکے سچے جانشین تھے۔ آپ باتفاق علماء ومفتیان کرام قاضی القضاۃفی الہندکے منصب پرفائزتھے۔ آپ نے دارالافتاء بریلی شریف کی مسندسے کثیر فتاوے جارے کئے۔ آپ کی نگرانی میں شرعی کونسل آفٖ انڈیابریلی شریف میں ایک عرصے سے مسلمانان ہندکی شرعی رہنمائی کے لئے متحرک ہے۔ عربی اردوانگریزی میں متعددکتابیں تصنیف کیں۔ آپ نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیزکی درجنوں کتب کاعربی زبان میں ترجمہ کیا۔ نیزمتعددکتب کاعربی سے اردومیں ترجمہ کیا۔ تقریباًنصف صدی پرمحیط تدریسی دورمیں ہزاروں طلباء نے آپ سے اکتساب علم کیا۔ آپ ایک صاحب طرزادیب ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیقی ذہن وفکررکھنے والے صاحب قلم بھی تھے۔ آپ کی نثرمیں بہت زیادہ جاذبیت وکشش پائی جاتی ہے۔ آپ عرب وعجم میں یکساں مقبول تھے۔ سلسلۂ قادریہ کی وسیع پیمانے پراشاعت کی۔ پوری دنیامیں لاکھوں مریدین پائے جاتے ہیں۔ تقویٰ وپرہیزگاری، خوف خداواستقامت میں بے نظیراوراپنی مثال آپ تھے۔
حضورتاج الشریعہ مفسراعظم ہندحضرت علامہ مفتی محمدابراہیم رضاخان قادری کے لخت جگر، سرکارمفتی اعظم ہندکے سچے جانشین، حضورحجۃ الاسلام کے مظہراورسیدی اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، مجدددین وملت الشاہ امام احمدرضاخان قادری بریلوی قدس سرہ العزیزکی برکات وفیوضات کامنبع اوران کے علوم وروایتوں کے وارث اورامین تھے۔ ان عظیم نسبتوں کافیضان آپ کی شخصیت میں اوصاف حمیدہ اوراخلاق کریمانہ کی صورت میں جھلکتاتھا۔
ولادت باسعادت: حضورتاج الشریعہ کی ولادت باسعادت۲۴؍ذیقعدہ۲ ۱۳۶ ھ -۲۳ ؍نومبر۱۹۴۳ ء بروزمنگل ہندوستان کے شہربریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ہوئی۔
اسم گرامی والقابات: آپ کااسم گرامی” محمداسماعیل رضاــ” جبکہ عرفیت”اختررضا”ہے۔ آپ” اختر”تخلص استعمال فرماتے تھے۔ آپ کے القابات میں ”تاج الشریعہ، جانشین مفتی اعظم، شیخ الاسلام والمسلین”زیادہ مشہورہیں۔
شجرۂ نسب: اعلیٰ حضرت امام اہلسنت تک آپ کاشجرہ نسب یوں ہے۔ محمداختررضاخان قادری ازہری بن محمدابراہیم رضاخان قادری جیلانی بن محمدحامدرضاخان قادری رضوی بن امام احمدرضاخان قادری برکاتی بریلوی رضی اللہ عنہم۔ آپ کے پانچ بھائی اورتین بہنیں ہیں۔ دوبھائی آپ سے بڑے ہیں۔ ریحان ملت مولاناریحان رضاخان قادری اورتنویر رضاخان قادری(آپ بچپن ہی سے جذب کی کیفیت میں غرق رہتے تھے بالآخر مفقودالخبرہوگئے)اوردوآپ سے چھوٹے ہیں حضرت قمررضاخان قادری علیہ الرحمہ اور حضرت منان رضاخان قادری منانی میاں دام ظلہ العالی۔
تعلیم وتربیت:
حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عمرشریف جب ۴؍سال؍۴ماہ اور۴دن ہوئی توآپ کے والدماجدحضورمفسراعظم ہندنے تقریب بسم اللہ خوانی منعقدکی۔ اس تقریب سعیدمیں ”یادگاراعلیٰ حضرت دارالعلوم منظراسلام”کے تمام طلباء کودعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ ناناجان تاجداراہلسنت، حضورمفتی اعظم ہندنے اداکرائی۔ آپ نے ناظرہ قرآن کریم اپنی والدہ ماجدہ شہزادیٔ مفتی اعظم سے گھرپرہی ختم کیا۔ والدماجدسے ابتدائی اردوکی کتب پڑھیں۔ اس کے بعدوالدبزرگوارنے دارالعلوم منظراسلام میں داخل کرادیا۔ درس نظامی کی تکمیل آپ نے منظراسلام سے کی۔ اس کے بعد۱۹۶۳ ء میں آپ” جامعۃ الازہر”قاہرہ، مصرتشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے” کلیہ اصول الدین”میں داخلہ لیااورمسلسل تین سال تک ”جامعہ ازہر”مصرکے فن تفسیروحدیث کے ماہراساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ آپ ۱۹۶۶ ء – ۱۳۸۶ ھ میں جامعۃ الازہرسے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پرآپ”جامعہ ازہرایوارڈ”سے نوازے گئے۔ (بحوالہ:مفتی اعظم ہنداوران کے خلفاء، ص۱۵، ج۱، مع ترمیم)
ازدواجی زندگی:
حضورتاج الشریعہ کاعقدمسنون حکیم الاسلام مولاناحسنین رضاخان بریلوی علیہ الرحمہ کی دخترنیک اخترکے ساتھ ۳؍نومبر۱۹۶۸ء شعبان المعظم ۱۳۸۸ھ بروزاتوارکومحلہ ”کانکرٹولہ، شہرکہنہ بریلی”میں ہوا۔ آپ کے ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی حضرت علامہ ومولاناعسجدرضاخان قادری بریلوی دام ظلہ النورانی اورپانچ صاحبزادیاہیں۔
درس وتدریس:
حضورتاج الشریعہ نے تدریس کی ابتداء دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سے ۱۹۶۷ ء میں کی۔ ۱۹۷۸ ء میں آپ دارالعلوم کے صدرالمدرسین اوررضوی دارالافتاء کے صدرمفتی کے عہدے پرفائزہوئے۔ درس وتدریس کایہ سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہالیکن آپ کی کثیرمصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکالیکن آخری وقت تک آپ نے” مرکزی دارالافتاء بریلی شریف”میں تخصص فی الفقہ کے علماء کرام کو”رسم المفتی، اجلی الاعلام اوربخاری شریف ”کادرس دیتے رہے۔
بیعت وخلافت: آپ کوبیعت وخلافت کاشرف حضورمفتی اعظم ہندسے حاصل ہے۔ سرکارمفتی اعظم ہندنے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کاشرف عطافرمادیاتھا اورصرف ۱۹؍سال کی عمرشریف میں ۱۵؍جنوری ۱۹۶۲ ء -۱۳۸۱ ھ کوتمام سلاسل کی خلافت واجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کوخلیفۂ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سیدالعلماء حضرت سیدشاہ آل مصطفی برکاتی مارہروی، احسن العلماء حضرت سیدحیدرحسن میاں برکاتی، والدماجدمفسراعظم ہندحضرت علامہ مفتی ابراہیم رضاخان قادری سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت وخلافت حاصل تھی۔
بارگاہ مرشدمیں مقام: حضورتاج الشریعہ کواپنے مرشدبرحق، شہزادۂ اعلیٰ حضرت، تاجداراہلسنت، مفتی اعظم ہندحضرت علامہ مفتی محمدمصطفی رضاخان نوری رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں بلندمقام حاصل تھا۔ سرکارمفتی اعظم ہندکوآپ سے بچپن ہی سے بے انتہاتوقعات وابستہ تھیں جس کااندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایاجاسکتاہے جومختلف مواقع پرآپ نے ارشادفرمائے:”اس لڑکے(یعنی حضورتاج الشریعہ) سے بہت امیدہے”۔ سرکارمفتی اعظم ہندنے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری سونپتے ہوئے فرمایا: ”اخترمیاں اب گھرمیں بیٹھنے کاوقت نہیں یہ لوگ جن کی بھیڑلگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے، اب تم اس کام کوانجام دو، میں تمہارے سپردکرتاہوں۔ ”لوگوں سے مخاطب ہوکرمفتی اعظم نے فرمایا:”آپ لوگ اب اخترمیاں سلمہ سے رجوع کریں انہیں کومیراقائم مقام اورجانشین جانیں۔ ”سرکارمفتی اعظم ہندنے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دورمیں حضورتاج الشریعہ کوتحریراًاپناقائم مقام وجانشین مقررفرمادیاتھا۔
فتویٰ نویسی: حضورتاج الشریعہ ۱۹۶۷ ء سے ۲۰۱۸ ء تک تقریباً۵۰ سال سے اس خدمت کوبحسن وخوبی سرانجام دیتے رہے۔ آپ خوداپنے فتویٰ نویسی کی ابتداء سے متعلق فرماتے ہیں :میں بچپن سے ہی حضرت (مفتی اعظم)سے داخل سلسلہ ہوگیاہوں، جامعہ ازہرسے واپسی کے بعدمیں نے اپنی دلچسپی کی بناء پرفتویٰ کاکام شروع کیاشروع شروع میں مفتی سیدافصل حسین رحمۃ اللہ علیہ اوردوسرے مفتیان کرام کی نگرانی میں یہ کام کرتارہا۔ اورکبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضرہوکرفتویٰ دکھایاکرتاتھا۔ کچھ دنوبعداس کام میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اورپھرمیں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضرہونے لگا۔ حضرت کی توجہ سے مختصرمدت میں اس کام میں مجھے وہ فیض حاصل ہواکہ جوکسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہ ہوتا۔ (مفتی اعظم ہنداوران کے خلفاء، ص۱۵۰، ج۱)
حضورتاج الشریعہ کے فتاویٰ سارے عالم میں سندکادرجہ رکھتے ہیں۔ وہ دقیق وپیچیدہ مسائل جوعلماء اورمفتیان کرام کے درمیان مختلف فیہ ہوں ان میں حضرت کے قول کوہی قول فیصل تسلیم کیاجاتاہے اورجس فتوے پرآپ کی مہرتصدیق ثبت ہوخواص کے نزدیک بھی وہ انتہائی معتبرہوتاہے۔ حضورتاج الشریعہ کے فتاویٰ سے متعلق جگرگوشۂ صدرالشریعہ، محدث کبیرحضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ قادری مصباحی دامت برکاتہم العالیہ رقم طرازہیں :”تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسالگتاہے ہم اعلیٰ حضرت امام احمدرضارضی اللہ عنہ کی تحریرپڑھ رہے آپ کی تحریرمیں دلائل اورحوالہ جات کی بھرمارسے یہی ظاہرہوتاہے۔ ”(حیات تاج الشریعہ)
حج وزیارت: حضورتاج الشریعہ نے پہلی مرتبہ حج وزیارت کی سعادت ۱۴۰۳ ھ – ۱۹۸۳ ء میں حاصل کی۔ دوسری مرتبہ ۱۴۰۵ ھ-۱۹۸۵ ء اورتیسری مرتبہ ۱۴۰۶ ھ -۱۹۸۶ ء میں اس سعادت عظمیٰ سے مشرف ہوئے۔ جبکہ چوتھی مرتبہ ۱۴۲۹ ھ-۲۰۰۸ ء میں، پانچویں مرتبہ ۱۴۳۰ ھ-۲۰۰۹ ء میں، چھٹی مرتبہ۱۴۳۱ ھ-۲۰۱۰ ء میں آپ نے حج بیت اللہ ادافرمایا، نیزمتعددمرتبہ آپ کوسرکارعالی وقارصلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ سے عمرہ کی سعادت بھی عطاہوئی۔
زہدوتقویٰ: حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ اخلاق حسنہ اورصفات عالیہ کامرقع تھے۔ حکمت ودانائی، طہارت وپاکیزگی، بلندیٔ کردار، خوش مزاجی وملنساری، حلم وبردباری، خلوص وللٰہیت، شرم وحیا، صبروقناعت، صداقت واستقامت بے شمارخوبیاں آپ کی شخصیت میں جمع تھیں۔ وہیں آپ زہدوتقویٰ کے بھی پیکرمجسم تھے۔ آپ کے تقویٰ کی ایک جھلک ذیل کے واقعہ میں ملاحظہ کیجئے۔
مولانامنصورفریدی رضوی(بلاسپور، چھتیس گڑھ)حضورتاج الشریعہ کے ایک سفرکاحال بیان کرتے ہیں :”حضرت حافظ وقاری محمدصادق حسین فرماتے ہیں کہ میں حضورتاج الشریعہ کی خدمت کے لئے معمورتھا….اوراپنے مقدرپرنازکررہاتھاکہ ایک ذرہ ٔ ناچیزکوفلک کی قدم بوسی کاشرف حاصل ہورہاتھااچانک میری نگاہ حضوروالا(حضورتاج الشریعہ)کی ہتھیلوں پرپڑی میں ایک لمحہ کے لئے تھراگیاآخریہ کیاہورہاہے، میری نگاہیں کیادیکھ رہی ہیں مجھے یقین نہیں ہورہاہے۔ آپ توگہری نیندمیں ہیں پھرآپ کی انگلیاں حرکت میں کیسے ہیں ؟میں نے عبدالوحیدفتح پوری جواس وقت موجودتھے اوردیگرافرادکوبھی اس جانب متوجہ کیاتمام کے تمام حیرت واستعجاب میں ڈوب گئے تھے، معاملہ یہ ہے کہ آپ کی انگلیاں اس طرح حرکت کررہی تھیں گویاآپ تسبیح پڑھ رہے ہوں اوریہ منظرمیں اس وقت تک دیکھتارہاجب تک آپ بیدارنہیں ہوگئے۔ ان تمام ترکیفیات کودیکھنے کے بعددل پکاراٹھتاہے کہ ؎
سوئے ہیں یہ بظاہردل ان کاجاگتاہے (تجلیات تاج الشریعہ، ص ۳۱۴)
ولیٔ باکرامت:
حضورتاج الشریعہ جہاں ایک عاشق صادق، باعمل عالم، لاثانی فقیہ، باکمال محدث، لاجواب خطیب، بے مثال ادیب، کہنہ مشق شاعرتھے وہیں آپ باکرامت ولی بھی تھے۔ کہاجاتاہے استقامت سب سے بڑی کرامت ہے اورآپ کی یہی کرامت سب سے بڑھ کرہے۔ آپ کی کرامت پیش خدمت ہے۔
مفتی عابدحسین قادری مصباحی(جمشیدپور، جھارکھنڈ)لکھتے ہیں :۲۲؍جون۲۰۰۸ء محب محترم جناب قاری عبدالجلیل صاحب شعبۂ قرأت مدرسہ فیض العلوم جمشیدپورنے راقم الحروف سے فرمایاکہ:”۵؍سال قبل حضرت ازہری میاں قبلہ دارالعلوم حنفیہ ضیاء القرآن، لکھنوکی دستاربندی کی ایک کانفرنس میں خطاب کے لئے مدعوتھے۔ ان دنوں وہاں بارش نہیں ہورہی تھی، سخت قحط سالی کے ایام گزررہے تھے، لوگوں نے حضرت سے عرض کی کہ حضوربارش کے لئے دعاء فرمادیں۔ حضرت نے نمازاستسقاء پڑھی اوردعائیں بھی کیں ابھی دعاء کرہی رہے تھے کہ وہاں موسلادھاربارش ہونے لگی اورسار ے لوگ بھیگ گئے۔ ”(تجلیات تاج الشریعہ، ص۲۲۹)
تصانیف: حضورتاج الشریعہ اپنے جدامجد، مجدددین وملت، سیدنااعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے مظہراتم اورپرتوکامل ہیں۔ اعلیٰ حضرت کی تحریری خدمات، طرزتحریرمحتاج تعارف نہیں ہے۔ حضورتاج الشریعہ میدان تحریرمیں بھی اعلیٰ حضرت کاعکس جمیل نظرآتے ہیں۔ آپ کی تصانیف وتحقیقات مختلف علوم وفنون پرعربی، اردواورانگریزی زبانوں میں موجود ہیں۔ جن کی تعداد۶۸ کے قریب ہیں۔ تحقیقی انداز، مضبوط طرزاستدلال، کثرت حوالہ جات، سلاست وروانی آپ کی تحریرکوشاہکاربنادیتی ہے۔ آپ اپنی تصانیف کی روشنی میں یگانۂ عصراورفریدالدہرنظرآتے ہیں۔ حضورمحدث کبیرفرماتے ہیں :”تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسالگتاہے کہ ہم اعلیٰ حضرت امام احمدرضارضی اللہ عنہ کی تحریرپڑھ رہے ہیں، آپ کی تحریرمیں دلائل اورحوالہ جات کی بھرمارسے یہی ظاہرہوتاہے۔ ”(حیات تاج الشریعہ، ص ۶۶)
حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ افتاوقضا، کثیرتبلیغی اسفاراوردیگربے تحاشہ مصروفیات کے باوجودتصنیف وتالیف کاسلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ آپ کی قلمی نگارشات کی فہرست درج ذیل ہیں۔
اردوزبان میں : (۱)ہجرت رسول(۲)آثارقیامت، تخریج شدہ(۳)ٹائی کامسئلہ(۴)حضرت ابراہیم کے والدتارخ یاآزر، مقالہ(۵)ٹیوی اورویڈیوکاآپریشن مع شرعی حکم(۶)شرح حدیث نیت(۷)سنوچپ رہو، دورا ن تلاوت ”نعرۂ حق نبی ”کی ممانعت(۸)دفاع کنزالایمان(۹)الحق المبین(۱۰)تین طلاقوں کاشرعی حکم(۱۱)جشن عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم(۱۲)سفینۂ بخشش، دیوان شاعری(۱۳)فضیلت نسب(۱۴)المواہب الرضویہ فی فتاوی الازہریہ المعروف فتاویٰ تاج الشریعہ(۱۵)چلتی ٹرین پرفرض وواجب نمازوں کی ادائے گی کاحکم(۱۶)اسمائے سورۃ فاتحہ کی وجہ تسمیہ(۱۷)تراجم قرآن میں کنزالایمان کی اہمیت(۱۸)منحۃالباری فی حل صحیح البخاری(۱۹)ملفوظات تاج الشریعہ(۲۰)کفر، ایمان، تکفیر(۲۱)تصویرکامسئلہ(۲۲)القول الفائق بحکم الاقتداء بالفاسق(۲۳)افضلیت صدیق اکبروفاروق اعظم رضی اللہ عنہما(۲۴)سعودی مظالم کی کہانی اختررضاکی زبانی۔
عربی زبان میں : (۲۵)الصحابۃ نجوم الاہتداء(۲۶)شرح حدیث الاخلاص(۲۷)سدالمشارع(۲۸)الفردہ شرح القصیدۃ البردہ(۲۹)تعلیقات زاھرہ علی صحیح البخاری(۳۰)روح الفؤادبذکری خیرالعباد(۳۱)نھایۃ الزین فی التخفیف عن ابی لھب یوم الاثنین(۳۲)حاشیہ عصیدۃ الشھدہ شرح القصیدۃ البردہ(۳۳)الحق المبین۔
تراجم: (۳۴)انوارالمنان فی توحیدالقرآن(۳۵)المعتقدوالمنتقدمع المعتمدالمستند(۳۶)قصیدتان رائعتان(۳۷)عطایاالقدیرفی حکم التصویر(۳۸)الزلال التقیٰ من بحرسبقۃ الاتقی(تخریج شدہ)
تعاریب: (۳۹)برکات الامدادلاھل استمداد(۴۰)فقہ شہنشاہ(۴۱)شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام(۴۲)دامان باغ سبحان السبوح(۴۳)حاجزالبحرین(۴۴)القمرالمبین(۴۵)صلاۃ الصفافی نورالمصطفیٰ(۴۶)قوارع القھارفی الردالمجسمۃالفجار(۴۷)الھادالکاف فی حکم الضعاف۔ (سوانح تاج الشریعہ)آپ کی اورچندتصانیف کے نام طوالت کے خوف سے ترک کررہاہوں۔
وصال پرملال:زہدوتقویٰ، خوف خدا، تواضع وانکساری، فکروفن، علم وادب، قرطاس وقلم کاروشن وتابناک یہ آفتاب ۶؍ذی قعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق20جولائی 2018 ء بروزجمعۃ المبارکہ بوقت مغرب ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔ (اِناللّٰہ واِناالیہ راجعون)۔ جانشین تاج الشریعہ حضر علامہ عسجدرضاخان قادری دام ظلہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اورپرنم آنکھوں سے کروڑوں محبین، مخلصین، معتقدین اورمریدین کی موجودگی میں ازہری گیسٹ ہاؤس، بریلی شریف میں تدفین عمل میں آئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبرانورپررحمت ونورکی بارش فرمائے اورہم تمام مسلمانوں کوآپ کے فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے آمین۔ بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
ابررحمت تیری مرقدپرگوہرباری کرے
حشرتک شان کریمی نازبرداری کرے
فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر۔
No Comments: