قومی خبریں

خواتین

جموں کشمیر کے انتخابی نتائج… کچھ بڑا ہونے والا ہے

کیا انجینئر رشید وادی کشمیر میں مرکزی دھارے کی جماعتوں کے لیے گھنٹی بجائیں گے

دیپک شرما
جموں:آرٹیکل 370 کی منسوخی اور نئی حد بندی کے بعد مرکز کے زیر انتظام خطے کی شکل اختیار کرنے والے جموں وکشمیرمیں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کی نظریںجمی ہوئی ہیں۔ ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ جموں و کشمیر کا وزیر اعلیٰ کون بنے گا، کس کی حکومت بنے گی۔ جموں و کشمیر انتخابات کے ایگزٹ پول سے قبل وادی کشمیر سے لے کر جموں ڈویژن تک قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ وادی میں صحافی برادری انجینئر رشید کو جموں و کشمیر کی سیاست کا بڑا کھلاڑی مانتی ہے ،اس برادری کا خیال ہے کہ وہ کنگ میکر کے کردار میں نظر آئیں گے۔ کشمیری صحافی یانا میر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انجینئر رشید کے وزیر اعلیٰ بننے سے وادی کے لوگ زیادہ خوش ہوں گے۔یانا میر کا کہنا ہے کہ کانگریس کے پاس کوئی موزوں امیدوار نہیں ہے جو ریاست کا وزیر اعلیٰ بن سکے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انجینئر رشید وزیر اعلیٰ بنے تو لوگ خوش ہوں گے۔ یانا میر نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ رشید وزیر اعلیٰ بنیں گے۔واضح ہو کہ ٹیرر فنڈنگ ​​کیس میں ملوث انجینئر رشید لوک سبھا انتخابات میں سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو شکست دے کر بارہمولہ سے ایم پی بنے تھے، وہ فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔ حال ہی میں عدالت نے ان کی ضمانت میں توسیع کی ہے۔ وہ آزاد امیدوار کے طور پر جیت گئےےتھے۔ جموں میں جہاں بی جے پی کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے وہیں کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ساتھ انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس بھی اہم اداکار ہیں۔ایسا مانا جاتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں انجینئر رشید کی جیت کے پیچھے نوجوانوں کی حمایت تھی۔ اس وقت کہا گیا تھاکہ جموں و کشمیر اور خاص کر وادی کے لوگ اقربا پروری اور روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ انجینئر رشید نے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے وادی کی کئی سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے ان امیدواروں کو عوامی اتحاد پارٹی کے بینر تلے میدان میں اتارا ہے۔پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے پہلے آخری وزیر اعلیٰ تھیں۔ موجودہ لیڈروں میں فاروق عبداللہ تین بار، مفتی محمد سعید دو بار اور عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد ایک ایک بار وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ محبوبہ مفتی اپنے والد مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد ریاست کی وزیر اعلیٰ بنی تھیں۔ جموں و کشمیر میں آخری اسمبلی انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔ ایسے میں انتخابی نتائج کے بعد جموں و کشمیر کو 10 سال بعد منتخب حکومت ملے گی۔ ان سب کے درمیان انجینئر رشید کو وادی کشمیر میں ایک بڑا چھپا ہوا ہیرو سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم نیشنل کانفرنس نے انجینئر رشید کو ٹیم مودی کا کھلاڑی ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دوسری جانب ریاست کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ انجینئر رشید ہندوستانی اتحاد کو بڑا دھچکا دے سکتے ہیں جس میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس اہم کردار ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور ہندوستانی اتحاد صرف 35-40 سیٹیں جیت جاتاہے، تو ایسی صورت حال میں وادی کشمیر میں انجینئر رشید اور جموں ڈویژن میں نیشنل کانفرنس جموں ڈویژن کے صدررہے بی جے پی لیڈر دیویندر سنگھ رانا جو کہ مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ کے بھائی ہیں، اہم کردار میں نظر آئیں گے۔خیال کیا جاتا ہے کہ رانا جموں و کشمیر بی جے پی میں واحد لیڈر ہیں جن کے ہندوستانی اتحاد میں شامل جماعتوں کے کئی لیڈروں کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ ساتھ ہی بی جے پی ایک ہندو ڈوگرہ کو ریاست کا وزیر اعلیٰ بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے، یعنی وہ چہرہ بھی راناکاہی ہے۔جبکہ وادی کشمیر کے علاوہ جموں ڈویژن، جموں، کٹھوعہ، سانبہ، ادھم پور، ڈوڈہ اور کشتو اڑ ایسے اضلاع ہیں جن میں بی جے پی کی گرفت کافی مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یہاں کا عام ووٹر بھی بے روزگاری، مہنگائی، صحت، تعلیم اور آمدنی کے گھٹتے ذرائع سے بی جے پی سے کافی ناراض ہے۔ ان سب کے باوجود اگر انتخابی نتائج توقعات کے منافی ہوتے ہیں تو ریاست کے عوام میں مستقبل کے بارے میں بے یقینی ضرور بڑھے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ریاستی حکومت نے ووٹنگ ختم ہونے کے فوراً بعد بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات اس سال کے آخر میں کرائے جانے کا اعلان کرکے اسمبلی انتخابات کےنتائج کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا مطلب ہے “کچھ بڑا” ہونے والا ہے۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *