قاہرہ: اسرائیل نے خان یونس سمیت جنوبی غزہ سے اپنی فوجیں بڑی تعداد میں واپس بلا لی ہیں اور اب صرف ایک بریگیڈ کو وہاں رہنے دیا ہے اور دوسری جانب مصر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے۔ میڈیا کے مطابق اس سال کے آغاز سے اسرائیل غزہ میں اپنی فوج کی تعداد میں مسلسل کمی کررہا ہے جہاں اس پر جنگ بندی کیلئے اپنے اتحادیوں بالخصوص امریکہ کا دباؤ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ فوجی ترجمان نے تعداد میں کمی کی وجہ کے حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی یہ بتایا کہ کتنے فوجیوں کو واپس بلایا گیا ہے۔ دوسری جانب چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ میں سیز فائر کیلئے ازسرنو مصر میں مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے جس کیلئے اسرائیل اور حماس دونوں نے اپنے نمائندے بھیجنے کی تصدیق کی ہے۔تاہم اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے خبردار کیا ہےکہ اسرائیل عالمی برادری کے دباؤ میں نہیں آئے گا اور نہ ہی حماس کی انتہا پسندانہ مطالبات کو منظور کرے گا۔
لیکن حماس کے رہنما باسم نعیم نے کہا ہے کہ نیتن یاہو اپنی ناکامی اور جنگ کے خاتمے پر ان پر عائد کی جانے والی ذمے داری سے بچنا چاہتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مکمل سیز فائر اور جنگ بندی کے لیے ان پر ڈالا گیا امریکی دباؤ ناکافی ہے۔حماس کا کہنا ہے کہ مکمل اور جامع سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے اور مقبوضہ خطے سے اسرائیلی کے مکمل انخلا کی صورت میں ہی معاہدہ ممکن ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی اور انہیں واپس بلا کر اسرائیل نے رفح میں کارروائی کا منصوبہ ترک کردیا ہے۔وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوجیوں کو واپس بلانے کا مقصد انہیں آرام دے کر دوبارہ جنگ کے لیے تیار کرنا ہے اور یہ فی الحال کیس نئے آپریشن کا عندیا نہیں ہے۔
No Comments: