قومی خبریں

خواتین

گیتا کے شلوک کا غلط ترجمہ پیش کرنے کے لئے آسام کے وزیر اعلیٰ نے معافی مانگی

بسوانےکہا:میری ٹیم نے بھگوت گیتا کے صفحہ 18 کے شلوک 44 کا غلط ترجمہ کر دیا تھا

نئی دہلی: آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اس بار اپنی غلطی کے لیے معافی مانگنے کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ حال ہی میں ہیمنت بسوا سرما نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل سے گیتا کا ایک شلوک پوسٹ کیا تھا جس کا غلط ترجمہ پیش کر دیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ تنازعہ کا شکار ہو گئے اور بڑی تعداد میں لوگ انھیں تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ اس تعلق سے اب وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے سوشل میڈیا پر ہی ایک پوسٹ کر کے معافی مانگی ہے۔
تازہ پوسٹ میں ہیمنت بسوا سرما نے لکھا ہے کہ ’’میں روٹین طور پر بھگوت گیتا کا ایک شلوک ہر صبح اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر شیئر کرتا ہوں۔ ابھی تک میں نے 668 شلوک پوسٹ کیے ہیں۔ حال ہی میں میری ٹیم کے ایک رکن نے بھگوت گیتا کے صفحہ 18 کے شلوک 44 کا غلط ترجمہ کر دیا تھا۔ جیسے ہی میں نے اسے نوٹس کیا تو میں نے پوسٹ کو ڈیلیٹ کر دیا۔ اگر میرے ڈیلیٹ پوسٹ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو میں ان سے معافی مانگتا ہوں۔
قابل ذکر ہے کہ ہیمنت بسوا سرما نے شلوک کے غلط ترجمہ والا پوسٹ ڈیلیٹ ضرور کر دیا تھا، لیکن اس پر سیاسی تنازعہ شروع ہو چکا تھا۔ اپوزیشن لیڈران نے آسام کے وزیر اعلیٰ پر نسلی تفریق کو فروغ دینے کا الزام لگایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے سوشل میڈیا پوسٹ پر شلوک کا جو ترجمہ پیش کیا گیا تھا اس میں بتایا گیا تھا کہ شودر کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر تین ذاتوں برہمن، کشتریہ اور ویشیہ کی خدمت کریں۔ اس ترجمہ پر اے آئی ایم آئی ایم چیف اسدالدین اویسی نے ہیمنت بسوا سرما پر حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حال ہی میں ایک ڈیلیٹ پوسٹ میں آسام کے وزیر اعلیٰ نے سماج کو لے کر اپنا نظریہ بتایا– کھیتی، گئو پروری اور تجارت ویشیوں کی ذمہ داری ہے اور برہمن، کشتریوں اور ویشیوں کی خدمت کرنا شودروں کی ذمہ داری ہے۔‘‘ اویسی آگے کہتے ہیں ’’ایک آئینی عہدہ پر بیٹھ کر آپ نے سبھی شہریوں کو یکساں ماننے کا حلف لیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آسام کے مسلمانوں کو کس بے رحمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوگا۔‘‘ ساتھ ہی اویسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہندوتوا دراصل آزادی، برابری، بھائی چارہ اور انصاف کا مخالف ہے۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *