
نئی دہلی ،20دسمبر (میرا وطن )
گزشتہ 12 نومبر دہلی ہائی کورٹ کے ایک طرفہ فیصلہ سے مسجد فیض الٰہی کے وجود کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔ کورٹ کی ہدایت کے مطابق پورے مسجد کمپلیکس کو ناجائز بتادیا گیا ہے۔فیصلہ میں ہدایات جاری کر تے ہوئے کہا گیا کہ متعلقہ فریقین کو سنوائی کا موقع دے کرآگے کی کارروائی کو انجام دیا جائے۔اس بابت میونسپل کارپوریشن کے محکمہ کے لینڈ اینڈ ایسٹیٹ میں فریقین کو سنوائی کا موقع دیا گیا ۔جس میں مسجد کی منتظمہ کمیٹی کی کسی بھی دلیل کو نہیں مانا گیا۔ جبکہ ملکیت کا دعوا بھرنے والا لینڈ اینڈ ڈی او بھی اپنے ملکیت کے دستاویز پیش نہیں کر سکا۔
سوشل اینڈ آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ محمد شاہد گنگوہی نے بتایا کہ مسجد فیض الٰہی کے متعلق سنہ 1965 میں مقا می میونسپل کونسلر ڈاکٹر ملک عباس نے آواز بلند کی تھی اور اسکے بعد مسجد کی پوری اراضی کی کانٹے دار تارو ں سے گھیرا بندی کی گئی تھی ۔ واضح ہو کہ گھیرا بندی کی گئی اراضی میں بہت سی قبریں موجود تھیں اور زیرہ سطح ایک خانقاہ بھی موجود تھی جس کو ڈی ڈی افسروںنے دوران ایمرجنسی مسجد کےپورے احاطہ کو جبری طور پر کرفیو لگاکر مسمار کیا گیا تھا۔
شاہد گنگوہی نے بتایا کہ 1997 میں ڈی ڈی اے کے پرنسپل لینڈ کمشنر ششی کانت شرما نے اپنے ایک حکم نامہ مورخہ 17 جون 7991 خط نمبر TA/VA/201745-120/Pt. کے ذریعہ جوائنٹ پارلیمینٹری کمیٹی بابت وقف اراضی کی سب کمیٹی کی ہدایت پر اوقاف اراضی کے سروے سے متعلق تین ورکنگ گروپ تشکیل دئے گئے تھے۔ جن میں سے گروپ نمبر تین جو سینٹرل ڈسٹرکٹ و پرانی دہلی کی و قف اراضی کی نشاندہی کے لئے تشکیل دیا گیا تھا ۔
انہوں نے بتایا کہ اس گروپ میں شمیم احمد ڈائرکٹر لینڈ چیئرمین، شاکر حسین دہلی وقف بورڈ،رگھو بیر سنگھ ، ہری رام تحصیلدار،ڈی کے راٹھی اے ڈی سروے،بلونت سنگھ اوورسیز ایل اینڈ ڈی او،ڈی این ٹھاکر اوورسیز،ایچ سی پانڈے اوورسیز،ڈائریکٹر ایریا پلاننگ ڈی ڈی اے،ڈائریکٹر باغبانی سینٹرل / اولڈ دہلی ممبران پر مشتمل تشکیل دیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس رپورٹ میں تقسیم سے اس وقت کے دہلی وقف بورڈ چیئرمین سراج پراچہ نے مضبوطی اور دلائل کے ساتھ مسجد فیض الٰہی کی اراضی کو اپنی رپور ٹ میں وقف بتایا ہے۔
شاہد گنگوہی نے مطالبہ کیا ہے کا حالیہ پس منظر حکام کسی فیصلہ پر پہنچنے سے قبل کمیٹی مزکورہ کی رپورٹ کا بھی جائزہ لیں تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔انہوں نے کہا کہ جلد بازی میں لئے گئے فیصلہ سے علاقہ میں امن وامان اور گنگا جمنی تہذیب کے بگڑنے کا بھی اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے۔
No Comments: