مساجد کو نبوی دور کےطرزپربنانے کیلئےجامع تحریک کی آج کے دور میں سخت ضرورت ہے کیونکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دورمیں مسجد نبوی صرف عبادات، ذکر و تلاوت تک محدود نہیں تھی بلکہ دنیوی معاملات کا بھی مرکز رہی۔جس سے انسانی فلاح وبہبود اور معاشرے کی بہتری کے ساتھ ساتھ تہذیب کے دائرے میں رہ کر کھیل کود اور تفریح کا سامان بھی مہیا کرایا جاتاتھااورہمیں بھی مسجد نبوی کی طرز پر اپنی مساجد کو کمیونٹی کی ترقی کا مرکز بنانے کی جانب توجہ دینا چاہئیے،ان خیالات کا اظہار مقررین نے گلوبل کیئر فاؤنڈیشن کی زیر نگرانی ایک کتابچے’ مثالی مسجد’کےاجراء کے جلسہ میں کیا۔
جنوبی ممبئی میں واقع اسلام جمخانہ (مرین لائنس) سیلی بریشن ہال میں اس تعلق سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدرجلسہ انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے کہا کہ مساجد کی اہمیت اور افادیت پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسجد نبوی جہاں عبادات کا مرکز بھی وہیں دار القضاء بھی تھا، دار الشفاء بھی تھا ، انسانیت کی نفع رسانی اور تمام امور خیر کی انجام دہی کا عالمی نمونہ بھی۔ مسجدیں ہمیں وقت پابندی کا بھی درس دیتی ہیں،جہاں سے وقت پر اذان اور وقت پر جماعت کا بہر صورت اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس لئے علماء کو حالات کے تناظر میں سوچنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کئی مثالیں بھی پیش کیں اور معاشرے کی بدحالی کا بھی ذکر کیا۔اس لیے ضروری ہے کہ مساجدکو ایک ایسا مرکز بنایا جائے کہ نوجوانوں میں بہتری لائی جاسکے۔صدر اسلام جمخانہ ایڈوکیٹ یوسف ابراہانی نے کہا کہ اس سلسلہ میں عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ اس میں ٹرسٹیان کارول اہم ہوناچاہئیے۔ایک کتاب کا اجراء کافی نہیں ہے ، اس کے لئے ہمیں لوگوں کو مسجد سے جوڑنا ہوگا ۔
شاہین انسٹی ٹیوٹ بیدرکے روح رواں ڈاکٹر عبد القدیرموجودہ نسل کی زبوں حالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہماری یہ نسل ہی اصل ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنی مسجدوں کوایک مرکز بنا کر اپنی موجودہ اور مستقبل کی نسل کی سماجی تعلیمی ، اور معاشی بہتری کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔بلکہ سنجیدگی سے ان کی بہتر تربیت پرغور کرنا ہوگا۔اس ضمن میں تاخیر نقصان دہ ثابت ہوگی۔
سینئر پولیس افسر قیصر خالد نے کہا کہ بیرون ملک اور خصوصی طور پر یورپ اور ملائیشیا کی مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں عملی طورپر مثالی مسجد بنانا چاہئیے۔انہوں نے مزیدکہاکہ کسی دوست کے ملاقات ہوتی ہے تو برسوں کا تعلق اور یادیں تازہ ہو جاتی ہیں،اور تعلیمی اداروں کو یاد کیاجاتا ہے،ہمیں اس طرح کاتعلق مساجد سے وابستہ کرنا چاہئیے ۔مساجد کوکچھ دیرکے لئے ہی استعمال کرتے ہیں۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم جب ہجرت کے بعدمدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے مسجد کی بنیاد رکھی ، یہ واضح پیغام ہے کہ آپ کی تہذیبی زندگی کا مرکز تھی،مسجد نبوی میں مشورے اور منصوبہ سازی کی جاتی تھی ،جنگ میں زخمیوں کا علاج ہوتااورخیر کے کام بھی انجام دیئے جاتے تھے۔ اس واضح رہنمائی اور ہدایت کے باوجود ہم کورے ہیں۔
اقبال میمن ،صدر میمن فیڈریشن نےکہا کہ ہم سب کو اس طرف توجہ دے کر کام کرنا ہوگا تبھی ہم مقصد حاصل کر سکیں گے۔ ابتداء میں گلوبل کیئر فاؤنڈیشن کے سربراہ عابد احمد نے کتابچے کی تالیف کا مقصد بتایااور کہاکہ اس کے ذریعے مساجد کے متولیان اور ائمہ کرام کو ترغیب دلانا ہے کہ وہ مساجد کو نماز ، تلاوت قرآن اور دیگر عبادات کے ساتھ ایک مثالی کمیونٹی مراکز میں تبدیل کریں اور نوجوانوں کی فکر کریں۔ ملت کے درد مندوں کی خواہش ہے کہ مساجد میں نبوی طرز پر مثبت تبدیلی لائی جائے ، یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم سب عملبکتیں گے،ورنہ کچھ نہیں ہوگا۔
مولانا اعجاز احمد کشمیری نے کہا کہ ائمہ کے احوال اور مسجد کے تقدس پر بھی ہماری نگاہ ہواور ائمہ کے احوال اور ان کے معاشی حالات پر بھی توجہ دی جائے۔انہیں خود کفیل بنایاجاسکے امام ایک سربراہ کی حیثیت رکھے۔اور مساجد کا تقدس بھی پامال نہ ہو۔ مفتی محمد اشفاق قاضی ،جامع مسجد نے کہا کہ جن خطوط پر کوشش کرنے کیلئے گفتگو کی گئی اور کتابچہ کا اجراء عمل میں آیا ، اس طرزپر کسی حد تک جامع مسجد میں کام ہو رہا ہے۔ اورسب سے اہم بطور خاص وقتا فوقتا غیر مسلم بھائیوں کو مسجد اور مسجد کی سرگرمیوں سے متعارف کرایا جاتاہے۔ اس نشست سے ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر، اے ایم پی کے صدرعامر ادریسی اور سنئیر سوشل ورکرسعید خان نے بھی خطاب کیا،صحافی سرفراز آرزو ،جاویدجمال الدین،عبدالقادر چودھری،شہباز صدیقی،بھی پیش پیش تھے۔ یو این آئی
No Comments: