امریکی حکومت کے ایک سیئنر افسر نے بدھ کو خلاصہ کیا کہ غزہ سمجھوتہ کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان تقریباً 90 فیصد تک کی ‘ڈیل’ ہو چکی ہے۔ صرف قیدیوں کی منتقلی اور فِلاڈیلفیا کوریڈور جیسے معاملے ابھی التوا میں ہیں۔امریکی افسر نے جنگ بندی پر موجودہ صورتحال سے واقف کراتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور سے غزہ سمجھوتہ پر رضامندی ہوچکی ہے۔ کُل 18 صفحات کی تجویز میں سے 14 صفحہ پر دونوں فریق کی ‘ہاں’ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی کئی اہم چیلنجز ہیں جن پر عام رضامندی ہونی باقی ہے۔ حالانکہ دیگر ثالث میں مصر اور قطر کا الزام ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اس بات پر ابھی بھی اڑے ہوئے ہیں کہ یرغمالوں کی رہائی سے پہلے فِیلاڈیلفیا کوریڈور سے فوج نہیں بلائی جائے گی۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ سمجھوتہ تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اسے تین مرحلوں میں پورا کیا جائے گا۔ پہلے مرحلہ میں دونوں فریقین کی جانب سے یرغمالوں کی رہائی کی جانی ہے۔ دوسرے مرحلے میں غزہ اور رفح میں کثیر آبادی والے علاقوں میں آئی ڈی ایف کی واپسی شامل ہے۔ تیسرے اور آخری مرحلہ میں اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان ایک دوسرے پر حملے نہ کرنے کی ‘قسم’ شامل ہے۔ حالانکہ ادھر اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس اس ضد پر ہے کہ پہلے فِیلاڈیلفیا کوریڈور سے آئی ڈی ایف کی واپسی ہو لیکن وہ مانتا ہے کہ فِلاڈیلفیا گلیارے کو حماس کے لیے کھول دینے کا سیدھا مطلب ہے کہ سرنگوں کے ذریعہ اسلحوں کی سپلائی پھر سے شروع ہو جاتی۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے خود مصر اور غزہ کے درمیان فِیلاڈیلفیا کوریڈور کو لے کر مسلسل دو راتیں پریس کانفرنس کی ہیں۔ دوسری طرف سمجھوتے کی حمایت کرنے والوں نے نیتن یاہو پر جنگ بندی کو ناکام بنانے کا الزام لگایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر یاہو فِیلاڈیلفیا کوریڈور سے اپنی فوج ہٹانے کو تیار ہو جاتے تو سمجھوتہ مکمل ہو جاتا۔
No Comments: