مصباح الحق
بھارت جیسے کثیر الثقافتی اور کثیر مذہبی ملک میں “وقف” ایک اہم ادارہ رہا ہے جو مسلم کمیونٹی کی مذہبی، سماجی اور تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ وقف کا تصور اسلامی روایت میں مضمر ہے، جس کے تحت کوئی فرد اپنی جائیداد کو مذہبی یا فلاحی مقاصد کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ یہ جائیداد مستقل طور پر اللہ کے نام پر مانی جاتی ہے اور اس کا استعمال صرف مقررہ مذہبی یا سماجی کاموں کے لیے ہی کیا جا سکتا ہے۔
وقف (ترمیمی) بل 2025، جسے ‘UWMEED ایکٹ’ بھی کہا جاتا ہے، بھارتی پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے۔ اس بل کا مقصد وقف املاک کے انتظام میں شفافیت، جوابدہی اور مؤثریت لانا ہے۔
وقف کی اہمیت اور اس کا انتظام
وقف املاک عموماً مساجد، قبرستانوں، مدارس، فلاحی ہسپتالوں، اسکولوں اور یتیم خانوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ بھارت میں ان املاک کا انتظام “وقف بورڈز” کے ذریعے کیا جاتا ہے، جنہیں ریاستی حکومتیں قائم کرتی ہیں۔ تاہم وقتاً فوقتاً ان املاک کے انتظام میں بدعنوانی، شفافیت کی کمی اور بدنظمی کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔
ترمیمی بل 2025: اہم مقاصد
وقف (ترمیمی) بل 2025 انہی پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔ اس بل کا بنیادی مقصد وقف املاک کے انتظام میں شفافیت، جوابدہی اور مؤثریت لانا ہے، نہ کہ وقف کے اصل تصور یا مذہبی احساسات میں مداخلت کرنا۔ اس بل میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
ڈیجیٹل ریکارڈنگ: تمام وقف املاک کا ڈیجیٹل ریکارڈ تیار کیا جائے گا، تاکہ جائیداد کی حیثیت، مقام اور استعمال کا شفاف ڈیٹا دستیاب ہو۔
آڈٹ اور نگرانی: وقف بورڈز کے کاموں کا باقاعدہ آڈٹ لازم کیا گیا ہے۔ ایک مرکزی نگرانی نظام کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
قبضے اور تجاوزات سے تحفظ: غیر قانونی قبضے اور تجاوزات سے وقف املاک کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔
عوامی شراکت: کمیونٹی کے افراد کی شمولیت بڑھانے کے لیے وقف کمیٹیوں میں مقامی نمائندگی کا نظام متعارف کرایا جائے گا۔
وقف بورڈز میں تنوع اور نمائندگی
بل میں مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں مسلم خواتین اور مختلف مسلم فرقوں (جیسے شیعہ، سنی، بوہرا، آغا خانی) کی نمائندگی لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، غیر مسلم ارکان کو بھی ان بورڈز میں شامل کیا گیا ہے تاکہ انتظام میں تنوع اور شمولیت کو فروغ دیا جا سکے۔
تنازعات کے حل کے طریقہ کار میں بہتری
بل میں وقف ٹریبونل کے احکامات کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا اختیار دیا گیا ہے، تاکہ عدالتی نظرثانی کے عمل کو مضبوط بنایا جا سکے۔
‘وقف بائے یوزر’ کی حالت میں ترمیم
بل میں ‘وقف بائے یوزر’ کے تصور کو واضح کیا گیا ہے، جس کے تحت آئندہ کسی جائیداد کو وقف قرار دینے کے لیے دستاویزی ثبوت یا کم از کم پانچ سال سے مسلم ہونے کا ثبوت درکار ہوگا۔
یہ ترمیم کیوں ضروری تھی؟
حالیہ برسوں میں وقف املاک پر تنازعات، غیر قانونی قبضے اور بدعنوانی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی معاملات میں دیکھا گیا کہ وقف بورڈز کے پاس نہ تو مناسب وسائل تھے اور نہ ہی کوئی متحد ڈیٹا سسٹم، جس سے وہ اپنی املاک کی مؤثر نگرانی کر سکیں۔ ایسے میں یہ ترمیم ایک ضروری قدم ہے تاکہ مذہبی امانتوں کی تقدس برقرار رہے اور معاشرے کے محروم طبقات تک وقف کی خدمات مؤثر انداز میں پہنچ سکیں۔
وقف (ترمیمی) بل 2025 نہ تو وقف کے مذہبی جذبے کو چیلنج کرتا ہے، نہ ہی اس کی قانونی حیثیت کو، بلکہ یہ اس کے مؤثر انتظام کی جانب ایک کوشش ہے۔ اس سے وقف املاک کے تحفظ اور ان کے بہتر استعمال کی امید کی جا سکتی ہے۔ جب مذہبی ادارے شفافیت اور جوابدہی کے ساتھ کام کریں گے، تو نہ صرف کمیونٹی کا اعتماد بڑھے گا بلکہ معاشرے کے کمزور طبقے بھی بااختیار بن سکیں گے۔
مجموعی طور پر، وقف (ترمیمی) بل 2025 وقف املاک کے انتظام میں اصلاح اور شفافیت لانے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔
No Comments: