نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ وہ بہار حکومت کو ذات پر مبنی مردم شماری کے تحت جمع کیے گئے اعداد و شمار یا نتائج کو شائع کرنے سے نہیں روک سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جب تک ریاستی حکومت کی طرف سے کسی آئینی حق کی خلاف ورزی یا بادی النظر میں اس کی طرف سے اہلیت کی کمی کا کوئی معاملہ نظر نہیں آتا ہے، ہم اسے ڈیٹا شائع کرنے سے نہیں روک سکتے۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزاروں کے ایک گروپ نے پٹنہ ہائی کورٹ کے یکم اگست کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں بہار حکومت کو ذات پر مبنی سروے مکمل کرنے کی اجازت دی تھی۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں عرضی گزاروں کے ایک گروپ نے ذات پر مبنی سروے کی اشاعت کو پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں سے پوچھا کہ لوگوں سے ان کی ذات ظاہر کرنے کے لیے کہنے سے رازداری کی کیا خلاف ورزی ہوتی ہے؟۔ درخواست گزاروں نے استدلال کیا کہ یہ عمل پرائیویسی معاملہ میں سپریم کورٹ کے 9 ججوں کے فیصلے کی واضح طور پر خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست کسی قانون کی حمایت کے بغیر لوگوں کی رازداری پر تجاوز نہیں کر سکتی۔
دو ججوں کی بنچ کی سربراہی کررہے جسٹس سنجیو کھنہ نے پوچھا کہ بہار جیسی ریاست میں پڑوسیوں کو ایک دوسرے کی ذات کے بارے میں علم ہوتا ہے… ان 17 سوالات میں سے کون سا سوال (سروے فارم میں پوچھے گئے سوالات) پرائیویسی پر حملہ کرتا ہے؟ یہ کارروائی ایک ایگزیکٹو آرڈر کے بعد کی جا رہی ہے۔
جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ نے یکم اگست کے پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دئے کہ جب تک بادی النظر میں خلاف ورزی کا کوئی معاملہ نہ ہو، ہم کچھ بھی نہیں روکیں گے… کچھ قانونی مسائل وہ ہیں جن پر بحث کی جا سکتی ہے۔ یہ عمل مکمل ہو چکا ہے اور ہائی کورٹ کا فیصلہ ان کے حق میں آ چکا ہے۔
No Comments: