نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس مولانا محمود اسعد مدنی، صدر جمعیۃ علماء ہند کے زیر صدارت بمقام مدنی ہال، آئی ٹی او، نئی دہلی منعقد ہوا، جس میں وقف املاک کا تحفظ، عبادت گاہ ایکٹ کے باوجود مساجد و مقابر کے خلاف فرقہ پرستوں کی جاری مہم، رام مندر تقریبات، فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی جیسے سلگتے ہوئے مسائل پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا اور اہم فیصلے کئے گئے۔ ازیں قبل جمعیۃ علما ء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے سابقہ کارروائی کی خواندگی کی اورایڈوکیٹ مولانا نیاز احمد فاروقی نےعبادت گاہ ایکٹ اور نئے تعزیری قانون کے تحت ماب لنچنگ کے لیے علیحدہ سزا تجویز کرنے کے پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اس موقع پر اپنے صدارتی کلمات میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ مساجد ومقابر کا تحفظ جمعیۃ علماء ہند کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، موجودہ دور میں جس طرح ایک کے بعد ایک عبادت گاہوں کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کے مدنظر یہ ضروری ہے کہ ٹھوس لائحہ عمل وضع کیا جائے اور تدارکی تدابیراختیار کی جائیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ طاقتیں مسلم اقلیت کو نیچا دکھانے اور ان کو ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا کرنے کی پہ درپہ کوشش کررہی ہیں، اس میں میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ ایسی طاقتوں کا مقابلہ کیا ہے اور ملک و ملت کے حق میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے ساتھ آئین اور قانون کے وسیلے سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے علاوہ حکومتوں کو بھی ایسی صورت حال پر قابو پانے کے لیے بارہا متنبہ کیا ہے۔ موجودہ وقت میں ہم اسی کردار پر قائم ہیں اور ایک مثبت اورمستحکم سوچ کے ساتھ صورت حال کا مقابلہ کررہے ہیں۔ مولانا مدنی نے بالخصوص رام مندر تقریبات کے پس منظر میں چند خدشات کی طرف بھی توجہ دلائی۔
مولانا مدنی نے اس کے علاوہ مسلمانوں کی سماجی و معاشرتی صورت حال پر گہری فکر مندی کا اظہار کیا اور کہا کہ اصلاح معاشرہ کی تحریکات کو صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں منشیات کی لت اور ملت کے مجموعی حالات کی ابتری کے باوجود شادی بیاہ میں فضول خرچی کے سدباب کے لیے ہمیں کمربستہ ہونا پڑے گا۔ محض روایتی طریقہ اختیار کرنے سے معاشرہ کی اصلاح کی مہم نفع بخش نہیں ہو سکتی بلکہ مختلف برادریوں کو جوڑکرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ارکان عاملہ کو متوجہ کیا کہ وہ ملت کی تعمیر کے لیے ٹھوس لائحہ عمل وضع کریں۔
مجلس عاملہ نے اپنے فیصلے میں رام مندر تقریبا ت کے پس منظر میں ایک اہم تجویز منظور کی، چنانچہ تجویز میں یہ کہا گیا کہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس نقض امن، اقلیت کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے کی کوششوں کے بارے میں خدشات کی طرف حکومت اور لاء اینڈ آرڈر نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہے۔ ملک میں نفرت کا جوماحول پیدا کیا جارہا ہے، وہ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ہم اسے انتخابات پر نامناسب اثر ڈالنے کا وسیلہ بھی سمجھتے ہیں۔ ہم اس موقع پر اپنے اس موقف کا بھی اعادہ کرناضروری سمجھتے ہیں کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کے معیار پر کھرا نہیں ا ترتا۔ یہ فیصلہ انصاف کی روح کے برخلاف آستھا اور تکنیکی نکات پر مبنی ہے۔ خود سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ اس بات کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ بابری مسجد مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ اجلاس کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ مذہبی مقامات قانون 1991 قانون کے سختی سے نفاذ سے متعلق سپریم کورٹ کی اپنے مذکورہ فیصلے میں یقین دہانی کے باوجود، عدالتیں، دیگر مسجدوں پر دعووں کی بھی شنوائی کر رہی ہیں۔ یہ رویہ عدالتی نظام پر ملک کے انصاف پسند عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا باعث ہے۔تجویز میں مزید کہا گیا کہ رام مند ر کی تقریبات میں حکومت کی فعال شرکت کو غیر منصفانہ عمل تصور کرتے ہوئے ہم یہ اپیل کرتے ہیں کہ حکومت اور اس کے اداروں کو جانب دارانہ پالیسی سے احتراز کرنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ہم مسلمانوں اور ملک کے عوام سے یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان حالات میں ملک میں امن وامان کی برقراری کی ہر ممکن کوشش کریں۔مجلس عاملہ میں وقف املاک سے متعلق جمعیۃ کی مرکزی وقف کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں۔ چنانچہ وقف جائیدادوں کے تحفظ سے متعلق متنوع مسائل کے حل کے لیے منظم جدوجہد پر زور دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دفتر جمعیۃ علماء ہند کے ’شعبہ اوقاف‘ کی نشاۃ ثانیہ کی جائے، اس کے لیے مرکزی وقف کمیٹی کا کنوینر حاجی محمد ہارون صاحب بھوپال کو مقرر کیا گیا، نیز کمیٹی کی سفارشات کے مدنظر یہ طے ہوا کہ فروری 2024 میں حیدر آباد میں نیشنل اوقاف کانفرنس منعقد کی جائے۔
اجلاس مجلس عاملہ میں ماب لنچنگ سے متعلق نئے وضع کردہ قانون کا جائزہ لیا گیا، یہ محسوس کیا گیا کہ اس قانون کے مختلف پہلؤوں کا تفصیلی مطالعہ ضروری ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے ارکان ( 1) ایڈوکیٹ ایم آرشمشاد (2) ایڈوکیٹ طیب خاں (3) ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی ہیں۔یہ کمیٹی اگلے تیس دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اجلاس میں فلسطین میں جاری خونریز نسل کشی اورانسانی ہلاکتوں پر سخت غم وغصہ اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔ منظور کردہ تجویز میں کہا گیا کہ شرمناک بات یہ ہے کہ اس صریح ظلم و بربریت کو روکنے میں اقوام متحدہ بھی ناکام ہے اور امریکہ اور اس کے حلیف اسرائیل کی پشت پناہی اور تعاون کر رہے ہیں۔ اس سنگین صورت حال پر جمعیۃ علماء ہند اقوام عالم بالخصوص حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے اس ظلم و بربریت کو جلد از جلد بند کرانے اور فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے کی کوشش کریں اور آزاد و خود مختار فلسطینی ملک کے قیام سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نافذ کرائیں۔اجلاس میں منی پور میں جاری تشدد اور اس کے بڑھتے دائرہ اثر پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور اسے سرکار اور مشنری کی ناکامی سے تعبیر کیا گیا۔ اجلاس میں بحیثیت جماعت یا عہدیدار الیکشن میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت و تشہیر سےمتعلق جمعیۃ کے موقف پر غورو خوض ہوا۔ اس سلسلے میں یہ تجویز منظور ہوئی کہ جمعیۃ علماء ہند کے سابقہ فیصلے اور دیرینہ تعامل کے مطابق جمعیۃ کے عہدیدار انتخابات میں سیکولر سیاسی جماعتوں کی حمایت ذاتی طور پر کرسکتے ہیں، لیکن بحیثیت جمعیۃ علماء ہند کسی مخصوص سیاسی پارٹی کی انتخابات میں حمایت نہیں کی جا سکتی۔
گزشتہ ایام میں اس طرح کی شکایات موصول ہوئی ہیں کہ بعض یونٹوں اور عہدیداروں نے باقاعدہ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے مخصوص پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا اور انتخابی مہم میں عملی طور پر حصہ لیا۔ ان کے اس طرح کے عمل کو جماعت کے ضوابط کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مجلس عاملہ کا یہ اجلاس اپنی سابقہ قرار داد کا اعادہ کرتا ہے اور اس پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے اور ضابطہ شکنی کرنے والوں کو تنبیہ کرنے اور آئندہ ضابطہ شکنی کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہدایت کرتا ہے۔ مجلس عاملہ میں اصلاح معاشرہ کے لیے لائحہ عمل وضع کرنے، درس قرآن کے لیے نصاب، ضابطہ عمل اور رہ نما ہدایات مرتب کرنے اور جمعیۃ بلڈنگ بلیماران وغیرہ کے لیے الگ الگ کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں جو میعاد بند مدت میں اپنی رپورٹ پیش کریں گی، نیز یہ فیصلہ ہوا کہ ماہ مئی 2024 میں مرکزی مجلس منتظمہ کا اجلاس بمقام دہلی منعقد کیا جائے، اس موقع پر کئی اہم شخصیات کے وصال پر بھی دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا اور ان کے تجویز تعزیت منظور ہوئی۔ اجلاس دیر رات مولانا رحمت اللہ میر کشمیری رکن شوری ٰ دارالعلوم دیوبند کی دعاء پر ختم ہوا۔اجلاس میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی اور ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی کے علاوہ مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارلعلوم دیوبند، مولانا رحمت اللہ میر کشمیر، مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا قاری شوکت علی خازن جمعیۃ علماء ہند، نائب امیرا لہند مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری، مولانا مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا عبداللہ معروفی دارالعلوم دیوبند، حاجی محمد ہارون مدھیہ پردیش، مولانا محمد عاقل گڑھی دولت، مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری، مفتی محمد جاوید اقبال کشن گنج، مولانا نیاز احمد فاروقی ایڈوکیٹ، مولانا کلیم اللہ خاں قاسمی، مولانا محمد ناظم پٹنہ، مولانا محمد ابراہیم کیرالہ، مولانا عبدالقدو س پالن پوری، حافظ عبیداللہ بنارس، مفتی عبدالرحمن قاسمی نوگاواں سادات، مولانایحیی کریمی میوات، مفتی عبدالقادر آسام، مولانا حبیب الرحمن الہ آباد د شریک ہوئے۔
No Comments: