لکھنؤ: اتر پردیش اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے دوران بدھ کو شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی۔ اس ہنگامے کا آغاز صحت کے مسائل پر بحث کے دوران ہوا، جہاں سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی اتل پردھان اور ریاستی وزیر مینکیشور شرن کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ بات اس قدر بڑھ گئی کہ اسپیکر ستیش مہانا کو مداخلت کرنی پڑی لیکن ہنگامہ جاری رہا۔ بالآخر اسپیکر نے اتل پردھان کو پورے سیشن کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا۔
اسپیکر کے حکم کے بعد مارشل نے اتل پردھان کو ایوان سے باہر نکال دیا، جس پر سماج وادی پارٹی کے اراکین نے شدید احتجاج کیا۔ اس دوران اسمبلی کے اندر اور باہر کشیدگی کا ماحول پیدا ہو گیا۔ سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما شیو پال سنگھ یادو نے اس فیصلے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یوگی حکومت کے وزیر نے خود نازیبا الفاظ استعمال کیے لیکن کارروائی صرف ان کے رکن کے خلاف کی گئی، جو ناانصافی ہے۔ بحث کے دوران سماج وادی پارٹی کے اراکین نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ریاست میں صحت کے بگڑتے ہوئے حالات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ وزیر مینکیشور شرن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا، جس پر ماحول مزید کشیدہ ہو گیا۔
دوسری طرف بی جے پی نے اس معاملے پر سماج وادی پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے کہا کہ سماج وادی پارٹی اپنی سیاسی زمین کھو چکی ہے اور عوام کی حمایت نہ ملنے کی وجہ سے اب اسمبلی میں ہنگامہ کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام ان کی ان حرکات کو دیکھ رہی ہے اور آئندہ انتخابات میں انہیں جواب دے گی۔
واقعے کے بعد اسمبلی اجلاس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیوں کی وجہ سے اجلاس کا ماحول مسلسل کشیدہ رہا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یوپی اسمبلی میں سماج وادی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہو۔ لیکن اس بار معاملہ اتنا بگڑ گیا کہ پورے سیشن کے لیے کسی رکن اسمبلی کو معطل کر دیا گیا۔
معطلی کے بعد سماج وادی پارٹی کے کارکنوں نے اسمبلی کے باہر بھی مظاہرہ کیا اور حکومت پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اپوزیشن کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی
بی جے پی رہنماؤں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے اور ایوان کے وقار کو برقرار رکھنے میں تعاون کرنا چاہیے۔ اس واقعے کے بعد ریاست کی سیاست مزید گرم ہو گئی ہے اور اسمبلی کے آئندہ اجلاسوں میں مزید ہنگامے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
No Comments: