غزہ : جیسے ہی غزہ میں سورج غروب ہوتا ہے اور بے گھر فلسطینیوں کے پلاسٹک کی چادروں سے بنے ہوئے خیموں میں تاریکی چھا جاتی ہے، تو اندھیرے میں اسرائیلی ڈرونز کی گونج اور توپ خانوں سے اگلتی ہوئی آگ ان پر یہ خوف طاری کر دیتی ہے کہ آیا وہ صبح کا سورج دیکھنے کے لیے زندہ بھی ہوں گے یا نہیں۔ انہی میں سے ایک عارضی خیمے میں ایک چھ سالہ بچی یاسمین اپنی ماں سے کہتی ہے، ’مجھے اپنی گود میں اٹھالیں، میں مرنا نہیں چاہتی‘۔ صفا ابو یاسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ میرے بچے سونے سے ڈرتے ہیں۔ ’ مجھے بھی ان کی جان کی فکر ہے‘۔ ابو یاسین اور ان کی چار بیٹیاں بے گھر فلسطینیوں کی عارضی خیمہ بستی المواصی میں رہ رہی ہیں، جسے اسرائیلی فوج نے محفوظ زون قرار دیا ہوا ہے۔ بے گھر فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد محفوظ پناہ کی تلاش میں المواصی کا رخ کر رہی ہے اور اب اس میں گنجائش بہت گھٹ چکی ہے۔ گیارہ ماہ سے جاری اس لڑائی میں غزہ کی 24 لاکھ کی آبادی کی اکثریت کم از کم ایک بار اپنا گھر بار چھوڑ چکی ہے۔ ابو یاسین اکثر رات بھر جاگتی رہتی ہیں۔ ناگہانی حملے کے خدشے کے علاوہ اس کی ایک اور وجہ ان کی بیٹی لجین ہے، اپریل میں پیدا ہونے والی یہ بچی اکثر سوتے میں جاگ اٹھتی ہے اور رونے لگتی ہے۔ ابو یاسین اسے سلانے کی کوشش میں جاگتی رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لجین کو چپ کرانا بہت مشکل ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ یہ محسوس کرے کہ وہ محفوظ ہے۔ ہمارے پاس جھولا بھی نہیں ہے جس میں اسے آرام مل سکے۔ ابو یاسین، بچی کو تھپتھاتے ہوئے ایک لوری گنگنانے لگتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب وہ سو جائے گی تو ایک خوبصورت پرندہ اس کی حفاظت کرے گا۔
No Comments: