قومی خبریں

خواتین

پارلیمنٹ کے اندر ہنگامہ کرنے کے الزام میں ابتک پانچ گرفتار ،چھٹے کی تلاش

سی آر پی ایف ڈائریکٹر جنرل انیش دیال سنگھ کےزیرصدارت وزارت داخلہ کی جانب سے جانچ کے لئے ایس آئی ٹی کی تشکیل

نئی دہلی :پچھلے دنوں پارلیمنٹ کی سیکورٹی میںنظر آئی خامی کی جانچ کے لیے مرکزی وزارت داخلہ نے ایس آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔اس سلسلے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے وزارت داخلہ نے کہا کہ لوک سبھا سکریٹری جنرل کے خط پر وزارت داخلہ نے سی آر پی ایف ڈائریکٹر جنرل انیش دیال سنگھ کی صدارت میں ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے۔ اس میں دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے افسران بطور رکن شامل ہوں گے۔اس بیان میں یہ بھی جانکاری دی گئی ہے کہ ’’کمیٹی اس بات کی جانچ کرے گی کہ سیکورٹی میں سیندھ کس طرح لگی اور سیکورٹی میں ہوئی کمی کی وجہ جاننے کے بعد کارروائی کی جائے گی۔ کمیٹی اس کے علاوہ سیکورٹی بہتر کرنے کو لے کر بھی جلد رپورٹ پیش کرے گی۔
واضح ہوکہ13 دسمبر کو پارلیمنٹ کی سیکورٹی میں بڑی خامی دیکھنے کو ملی جب وزیٹرس گیلری میں بیٹھے دو لوگ لوک سبھا میں کود پڑے اور ایوان کی کارروائی کے دوران اراکین پارلیمنٹ کی جگہ پر اچھلتے بھاگتے دکھائی دیے۔ انھوں نے ایوان میں پیلے رنگ کا دھواں بھی پھیلا دیا جس سے افرا تفری کا ماحول پھیل گیا۔ حالانکہ اس سے کسی کو نقصان نہیں ہوا اور دونوں افراد کو اراکین پارلیمنٹ نے پکڑ کر سیکورٹی اہلکاروں کے حوالے کر دیا۔ ایک طرف ایوان زیریں میں یہ ہنگامہ ہو رہا تھا اور دوسری طرف پارلیمنٹ احاطہ میں دو دیگر لوگوں نے ’تاناشاہی نہیں چلے گی‘ نعرہ لگاتے ہوئے وہاں پر دھواں پھیلا دیا۔
بتایا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں مجموعی طور پر 6 لوگ شامل تھے جن میں سے دو نے لوک سبھا کے اندر ہنگامہ مچایا اور دو پارلیمانی احاطہ میں ہنگامہ کر رہے تھے۔ ان چاروں کو فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا اور پھر مزید ایک شخص کی گرفتاری عمل میں آئی۔ پولیس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پانچ لوگ پکڑے جا چکے ہیں اور ایک فرار شخص کی تلاش کی جا رہی ہے۔ لوک سبھا میں کودنے والے شخص کی شناخت ساگر شرما اور منورنجن ڈی کی شکل میں ہوئی ہے۔ امول شندے اور نیلم کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سے پکڑا گیا ہے۔ ان کا پانچواں ساتھی للت بھی پارلیمنٹ میں چاروں کے ساتھ آیا تھا، لیکن ہنگامہ ہونے پر وہ بھاگ گیا جو اب بھی فرار ہے۔ ان کا چھٹا ساتھی وکی بھی پولیس کی گرفت میں ہے، لیکن وہ پارلیمنٹ ہاؤس نہیں آیا تھا۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *