نئی دہلی۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ایک فرد کو اس بات حق حاصل ہے کہ وہ بلاتفریق مذہب اور عقیدہ کے معاملے کے اپنے شریک حیات منتخب کرسکتے ہیں۔ اس میں کہاگیا ہے کہ شادی کا حق ”انسانی اختیار “ کا حصہ ہے اور جب اس میں بالغوں کی رضامندی شامل ہو تو اس میں ریاست‘ معاشرہ یاوالدین کی طرف سے روکاوٹ نہیں ڈالا جانا چاہئے۔
جسٹس سوربھ بنرجی نےگھر والوں کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا کررہے ایک جوڑے کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے یہ مشاہدہ پیش کیا۔اس جوڑے نے اسپیشل میریج ایکٹ1954کے تحت والدین کی مرضی خلاف جاکر شادی کی ہے جس کی وجہ سے اسےمسلسل دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عدالت نے نوٹ کیاکہ اپنی پسند کے شخص کے ساتھ شادی کرنے کا حق آئین کے ارٹیکل 21کالازمی جزو ہے جو زندگی اور شخصی آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ عدالت نے روشنی ڈالی کہ ذاتی انتخاب‘ خاص طور پر شادی کے معاملات ارٹیکل 26کے تحت محفوظ ہیں۔
جسٹس بنرجی نے یہ کہتے ہوئے کہ انہیں اپنے ذاتی فیصلوں او رانتخاب کے لئے سماجی منظوری کی ضرورت نہیں ہے کہاکہ والدین جوڑے کی زندگی اور آزادی کے لئے خطرہ نہیں بن سکتے۔عدالت نے حکام کو ہدایت دی کہ مذکورہ جوڑے کو متعلقہ کانسٹبل اورایس ایچ او سے رابطہ کی جانکاری فراہم کریں‘ ضرورت کے مطابق ان کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔
No Comments: