نئی دہلی: کولکاتا واقع آر جی کر میڈیکل کالج و اسپتال میں زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری و قتل سے متعلق کیس پر سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری کے بعد قتل اور اسپتال میں ہوئی توڑ پھوڑ کے معاملے میں از خود نوٹس لیتے ہوئے یہ سماعت کی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ میں جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا شامل رہے۔ بنچ نے اس معاملے پر سماعت کے دوران متاثرہ کی شناخت ظاہر ہونے پر فکر کا اظہار کیا اور پولیس جانچ سے لے کر آر جی کر میڈیکل کالج کے پرنسپل سندیپ گھوش کے کردار تک پر سوال اٹھائے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں 8 رکنی ٹاسک فورس کی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جس میں ایمس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم سرینواسن کے علاوہ کئی دیگر ڈاکٹرس کو شامل کیا گیا ہے۔ آج ہوئی سماعت کے دوران چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ایک بات واضح لفظوں میں کہا کہ یہ صرف ایک قتل کا معاملہ نہیں ہے، ہمیں ڈاکٹروں کی حفاظت کی فکر ہے۔ بنچ نے کہا کہ خواتین تحفظ سے محروم ہو رہی ہیں۔ آخر ایسے حالات میں ڈاکٹر کس طرح کام کریں گے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کئی مقامات پر ’ریسٹ روم‘ تک نہیں ہوتے۔ آج خواتین تیزی سے وَرک پلیس (ملازمت کے لیے) میں شامل ہو رہی ہیں۔ ان کی سیکورٹی یقینی کرنے اور بدلاؤ لانے کے لیے ہم مزید ایک عصمت دری کا انتظار نہیں کر سکتے۔ طبی پیشہ میں تشدد کا اندیشہ بڑھ گیا ہے اور مردوں کی بالادستی والی سوچ کے سبب خاتون ڈاکٹرس کو زیادہ ہدف بنایا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر خواتین کام پر نہیں جا پا رہی ہیں اور کام کرنے کا ماحول محفوظ نہیں ہے تو ہم انھیں مساوات سے محروم کر رہے ہیں۔ ہمیں کام کرنے کے محفوظ حالات کو یقینی بنانے کے لیے قومی پروٹوکول بنانے کی ضرورت ہے۔
No Comments: