غزہ : فلسطین کا دورہ کرنے والے مغربی ممالک کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ غزہ میں صحت کا نظام منہدم ہو چکا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حالیہ مہینوں میں غزہ کا دورہ کرنے والے ان ڈاکٹروں نے اقوام متحدہ کی ایک تقریب میں اسرائیلی حملوں اور اس دوران ہونے والے ’خوفناک مظالم‘ کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ غزہ کا دورہ کرنے والے چار ڈاکٹروں کا تعلق امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے ہے جو غزہ میں صحت کے نظام کی بہتری کے لیے مختلف ٹیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن کو پچھلے برس اکتوبر میں اسرائیلی حملے کے بعد سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے سے 23 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوئے ہیں جن کو فاقہ کشی کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ زیادہ تر علاقہ ملیامیٹ ہو چکا ہے جبکہ 31 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔غزہ میں برطانیہ کے ایک طبی امدادی ادارے کے ساتھ کرنے والے سرجن نک مین رڈ نے ایک درد ناک منظر یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایک ایسی بچی دیکھنے کو ملی جو بری طرح جھلس چکی تھی اور اس کے چہرے کی ہڈیاں تک نظر آ رہی تھیں۔’ہم جانتے تھے کہ اس کے زندہ بچنے کے امکانات نہیں، تاہم ہمارے پاس اسے دینے کیلئے درد کش دوا مارفین تک موجود نہیں تھی۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کینسر کے سرجن مینرڈ نے مزید کہا کہا کہ ’وہ نہ صرف مرنے والی تھی بلکہ شدید اذیت میں مر رہی تھی۔‘اسی طرح میڈگلوبل کے ساتھ کام کرنے والے سپیشلسٹ ظاہر ساہلول کا کہنا تھا کہ ایک سات سالہ بچی حیام ابوبر خدیر کو غزہ کے ہسپتال میں لایا گیا جس کے جسم کا 40 فیصد حصہ اسرائیل کے فضائی حملے نتیجے میں بری طرح جل چکا تھا۔ حملے میں اس کا والد اور بھائی ہلاک ہو گئے تھے اور ماں بھی شدید زخمی تھی۔’چند ہفتے بعد اس کو علاج کے لیے مصر روانہ کیا گیا تاہم دو روز بعد وہ دم توڑ گئی۔‘اسرائیل نے فلسطینی علاقے پر پچھلے برس سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے جواب میں کیا تھا، جس میں اسرائیل کے شمالی حصے میں ایک ہزار دو سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔بین الاقوامی ماہرین نے خبردار کیا ہے اسرائیل حملے کے بعد نسل کشی کر رہا ہے اور عالمی عدالت ان الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔دوسری جانب اسرائیل نسل کشی کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف صرف حماس ہے، عام شہری نہیں۔
No Comments: