تہران :ایک گروپ کے حوالے سے میڈیا میں خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ ایران کی نام نہاد اخلاقی پولیس نے حجاب نہیں پہننے پر 16 سالہ بچی کی پٹائی کر دی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق میٹرو میں مبینہ طور پر حملہ کے بعد 16 سالہ ایک لڑکی کوما میں چلی گئی ہے۔ اس کا اسپتال میں سخت سیکورٹی کے درمیان علاج جاری ہے اور میڈیا کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ مہسا امینی کی موت کے بعد جس طرح ایران میں مظاہرے شروع ہوئے تھے، ایک بار پھر ویسی حالت بن سکتی ہے۔کرد حامی گروپ ہینگو کا کہنا ہے کہ اس بچی کا نام ارمیتا گراوانڈ ہے، جس کے ساتھ تہرا میٹرو پر خاتون پولیس افسران نے پٹائی کی تھی۔ لڑکی پر حجاب نہیں پہننے کا الزام تھا۔ نیوز ویب سائٹ ایران وائر نے ایک ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ پولیس افسران کے ذریعہ دھکا دیے جانے کے بعد ارمیتا کے سر میں چوٹ لگی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حجاب کو لے کر ایران گزشتہ کچھ وقت سے تشدد کی آگ میں جل رہا ہے۔ مہسا امینی کی موت کےبعد پورے ایران میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور بڑی مشقتوں کے بعد حالات قابو میں آئے، لیکن تازہ معاملہ کے بعد پھر سے تشدد بھڑکنے کا اندیشہ ہے۔ حالانکہ ایرانی افسران نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ہڑکی کی اس حالت کے لیے پولیس ذمہ دار ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ ارمیتا کا جس اسپتال میں علاج چل رہا ہے، وہاں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ پولیس کو اندیشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں۔ ایک مقامی روزنامہ کی صحافی مریم لوٹفی نے واقہع کے بعد اسپتال کا دورہ کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن انھیں فوراً حراست میں لے لیا گیا۔ بعد میں انھیں رِہا کر دیا گیا۔
No Comments: