پریاگ راج ( نامہ نگار ): آج کے دور میں معاشرے کی ستم ظریفی کو اپنی تخلیقات کے ذریعہ اجاگر کرنا، غلط چیزوں کے خلاف اپنی تخلیقات کے ذریعہ ڈٹ جانا بڑی بات ہے۔ کہانیوں اور غزلوں کے ذریعہ قلمکار اپنا کلام کہتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کہتے رہیں گے۔ یہ بات پرمود دوبے کی کہانیوں کے مجموعے ’’غوسلہ‘‘ اور ڈاکٹر امتیازثمر کے شعری مجموعےمحبت کا ثمر میں نظر آتی ہے۔ ان دونوں ہی لوگوں نے موجودہ زمانے کی بے ضابطگیوں کو دیکھا، سمجھا اور پرکھا پھر اسی کے مطابق انہوں نے تخلیق کی ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مشہور نیورو سرجن اور شاعر ڈاکٹر پرکاش کھیتان نے اتوار کو کریلی میں واقع ادب گھر میں ادبی تنظیم گفتگو کے زیر اہتمام ایک منعقدہ پروگرام میں کیا ۔
ادبی تنظیم گفتگو کے صدر امتیاز احمد غازی نے کہا کہ پرمود دوبے اور ڈاکٹر امتیاز ثمر ۲۱؍ ویں صدی کے نمایا تخلیق کار ہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیقات کے ساتھ ایک شاندار موجودگی درج کرائی ہے۔ ڈاکٹر ویریندرتیواری نے کہا کہ پرمود دوبے نے اپنی کہانیوں میں سماج کی بے ضابطگیوں کو بہت ہی پر جوش انداز میں اجاکر کیا ہے۔ ریلوے میں کام کرتے ہوئے دوبے نے جو کچھ تجربہ کیا ،انہوں نے بہت درست طریقہ سے اس کا جائزہ لیا اور اس کا گراف بنایا۔ ان کے افسانوں میں کہیں کہیں پریم چند کی کہانیوں کے نظریات و خیالات بھی ملتے ہیں۔
اجیت شرما آکاش نے کہا کہ ڈاکٹر امتیاز ثمر کو غزل اور نظم کی باریکیوں کا بہت اچھا علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اقوال میں غزل کا طریقہ اور روایت پوری طرح نظر آتی ہے۔ آج کے دور میں ایسی غزلیں لکھنے کی ضرورت ہے۔ پرمود دوبے نے کہا کہ آج پریاگ راج آکر اور یہاں کی ادبی سرگرمیوں کو دیکھ بہت خوشی ہوئی۔یہ شہر جس چیز کیلئے مشہور ہے وہ آج صاف نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر امتیاز ثمر نے کہا کہ ادبی تنظیم گفتگو نے پریاگ راج میں ادب کی روایت کو برقرار رکھا ہے یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ یہاں میری کتاب کا اجراء میرے لیے باعث فخر ہے۔ پروگرام کی نظامت اجیت شرما آکاش نے کیا ۔
بعد ازاں مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں نریش مہارانی ،افسر جمال، پربھا شنکر شرما، سنجے سکسینہ ، شیواجی یادو، ارچنا جیسوال، مسرت جہاں ،فرمود الہ آبادی، وجے لکشمی ویبھا، اسلم نظامی ،بھارت بھوشن ورشنی اور آصف عثمانی وغیرہ نے کلام پیش کیا۔
No Comments: