قومی خبریں

خواتین

تحریک جنگ آزادی اور ساجھی وراثت اور ہماری ذمہ داریاں

بھارت کے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں نے اس وقت بھی سخت موقف کا اظہار کیا تھا جب ملک کی آزادی کے ساتھ مادر وطن کے سینے پر تقسیم کی عبارت لکھی گئی تھی۔

بھارت کی آزادی ساجھی وراثت کی نایاب مثال ہے۔یہ ایک ایسی وراثت ہے جس کی حفاظت ہر بھارتیہ پر فرض ہے۔ ساجھی وراثت نہ صرف بھارت کی مشترکہ تہذیب کی امین ہے بلکہ اسی میں بھارت کی روح بستی ہے۔
صدرنگ یہ فضا میرے ہندوستاں کی ہے
خوشبو اسی میں دیکھئے سارے جہاں کی ہے
بھارت کی عظمت،مدھیہ پردیش کی شان و شوکت اور بھوپال کو خوبصورت بنانے میں سبھی دیش واسیوں نے اپنا خون جگر دیا ہے لیکن آج چند مفاد پرست عناصر کے سبب ملک کی عظمت اور مشترکہ تہذیب کے نقوش دھندلے پڑرہے ہیں۔ایسے میں ساجھی وراثت کے وارثین کی نہ صرف ذمہ داری بڑھ گئی ہے بلکہ ایک بار پھر اسی اتحاد و اتفاق کو پیش کرنے کی ضرورت ملک کو در پیش آگئی ہے جو ان کی نایاب وراثت کا حصہ ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت مختلف تہذیبوں کا گلدستہ ہے اور اگر اس گلدستہ میں سے مختلف رنگوں کو نکال کر صرف ایک رنگی پھول ہی لگائے جائیں گے تو اس کی خوبصورتی کا رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔مادر وطن کو تو جنت نشاں کہا جاتا ہے اور جنت میں کبھی بھی یک رنگی رنگ نہیں ہوسکتے ہیں۔کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے
کوئی چمن کہیں جنت نشاں نہیں ہوتا
اگر زمین پر ہندوستاں نہیں ہوتا
بھارت کے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں نے اس وقت بھی سخت موقف کا اظہار کیا تھا جب ملک کی آزادی کے ساتھ مادر وطن کے سینے پر تقسیم کی عبارت لکھی گئی تھی۔ وہ لوگ جو جذبات میں ہجرت کرکے گئے تھے آج جب بھارت کے امن و امان کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ کاش ہمارے بزرگوں نے عجلت میں یہ غفلت کا کام نہ کیا ہوتا۔اس وقت بھی بھارت سے محبت کرنے والا مسلمان یہی کہتا تھا
تم جا کہیں بھی ہم اسی جنت میں رہیں گے
بھارت کے ہیں بھارت سے ہیں اور بھارت میں رہیں گے
بھارت کی ہمہ جہت ترقی ہو یہ ہر بھارتیہ کا خواب ہے۔لیکن خواب کی تکمیل یوں ہی نہیں ہونے والی۔اس کے لئے ہمیں عوام کو بیدار کرنا ہوگا اور عہد حاضر کے جو تقاضے ہیں اس سے نئی نسل کو واقف کرانا ہوگا۔نئی نسل سے واقف کرانے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ ہر قوم کے جو مجاہدین آزادی ہیں ان کی خدمات کو تلاش کرکے نمایاں کیاجائے۔اگر یہ کام وقت رہتے نہیں کیاگیا تو زمانہ جو ستم کی چال چل رہا ہے اس میں سے جس طرح سے ساجھی وراثت کے مجاہدین آزادی کے نام کو ایک ایک کرکے فراموش کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے، یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے۔یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ساجھی وراثت کے محافظوں سے کہیں تو غفلت ہوئی ہے جس کے سبب اب ملک کی آزادی کے ہیرو میں صرف چند نام ہی نظر آتے ہیں اور وہ قوم جس کے مجاہدین لاکھوں کی تعداد میں مادر وطن کے لئے قربان ہوئے ہیں ان کا نام تو تلاش بسیار کے بعد ہی کہیں نظر آتا ہے۔اگر آپ غور سے دیکھیں تو ۷۵۷۱ سے ۷۴۹۱ تک کوئی سال ایسا نہیں ہے جب اس قوم کے مجاہدین نے مادر وطن کو اپنے خون جگر کا عطیہ نہ دیا ہو۔جب ہم جھانسی کی رانی کی بات کرتے ہیں تو نواب علی بہادرفوجی، سردار غلام غوث، دوست محمد خاں، محمد زماں خاں، خدا بخش، منذر/مندر مسلم خاتون باڈی گارڈ وغیرہ وغیرہ کو بھی یاد کرنا چاہئے۔ جب بیگم حضرت محل کی قربانیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو راجہ بینی پرساد ، گلاب سنگھ، ہنومنت سنگھ، راجہ بال بھدر سنگھ وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح مجنوں شاہ فقیر کے ساتھ بھوانی پاٹھک، رانی چودھری کو یاد رکھنا چاہئے۔اسی طرح جب ہم گاندھی جی،پنڈٹ جواہر لعل نہرو، ارُونا آصف علی،سبھاش چندر بوس، سروجنی نائیڈو،،بابا صاحب امبیڈکر کا نام لیتے ہیں تو ہمارے لبوں پر سراج الدولہ، ٹیپو سلطان،بہادر شاہ ظفر، مولانا آزاد،حسرت موہانی،اشفاق اللہ خان وغیرہ کا بھی نام رہنا چاہیے۔
آج ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہمیں اپنی کوششوں سے ملک کے ایسے سیکڑوں گمنام مجاہدین آزادی جنہوں نے اپنا سب کچھ مادر وطن کے لئے قربان کر دیا اور مادر وطن کی خاک اوڑھ کر سو گئے ہیں ان کی کی تصاویر اور دستاویز کو تلاش کرنا چاہئے۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی نسل گاندھی جی کے قاتل کا نام تو جانتی ہے لیکن گاندھی جی کے محافظ بخت میاں انصاری(بطخ میاں انصاری) کو نہیں جانتی ہے۔بخت میاں انصاری نے بابائے قوم کو تو بچا لیا لیکن ان کی یہ قربانی حاکم وقت برٹش حکومت کو پسند نہیں آئی اور صرف انہیں ہی نہیں بلکہ انکے پورے خاندان کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ملک کی آزادی کے بعد انہیں رہائی ملی۔ ان کی خدمات پر پہلے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجیندر پرشاد نے جو زمین کا عطیہ دیا تھا وہ آج تک ان کے خاندان کو نہیں مل سکا۔
جشن آزادی کے موقعہ پر طلبا کے بیچ مصوری مقابلے کے انعقاد کا مقصد یہی ہے کہ نئی نسل ملک کی آزادی کی روشن تاریخ کو جانے۔اسے سمجھے اور اس میں اپنا کردار پیش کرے۔جس ملک و قوم کے بچے اور نئی نسل بیدار ہوتی ہے وہی انقلاب کی تاریخ لکھتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے ملک کے نونہال مجاہدین آزادی کی روشن تاریخ کا مطالعہ کرینگے اور اس کی روشنی میں ساجھی وراثت کو مضبوط کرتے ہوئے ایک ایسے بھارت کی داغ بیل ڈالیں گے جس میں سبھی قوموں کے لوگوں کو یکساں حقوق میسر ہونگے اور بھارت دنیا میں اپنی ذہانت سے انقلاب کی نئی تاریخ لکھے گا اور دنیا بھارت کے قدموں میں اپنا تحفظ تلاش کرے گی۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *