نئی دہلی :سپریم کورٹ پیر 8 جنوری کو بلقیس بانو کے قصورواروں کی سزا معافی کیس کے سلسلے میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔ عدالت نے اس سے قبل درخواستوں کے ایک بیاچ کی سماعت کی تھی جس میں بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس کے مجرموں کو دی گئی معافی کو چیلنج کیا گیا تھا۔گجرات حکومت نے بلقیس بانو کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو 15 اگست 2022 کو رہا کر دیا تھا۔ کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے تمام 11 مجرموں کو اس وقت گجرات میں رائج معافی کی پالیسی کے مطابق رہا کیا گیا تھا۔ مارچ 2002 میں گودھرا کے بعد کے فسادات کے دوران بلقیس بانوکی مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کی گئی اس وقت وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں جب وڈودرا میں فسادیوں نے انکے خاندان پر حملہ کیااور انکے خاندان کے 14 افراد کے ساتھ انھیں مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا اس وقت انکے ساتھ تین سالہ دختر بھی ساتھ تھیں۔جسٹس بی وی ناگارتھنا اور اجل بھویان کی بنچ نے تب 11 قصورواروں کو دی گئی معافی کے خلاف دائر درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ چیلنج کرنے والی درخواستیں نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی طرف سے دائر کی گئی تھیں، جن کی جنرل سکریٹری اینی راجہ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی رکن سبھاشنی علی، صحافی ریوتی لاول، سماجی کارکن اور پروفیسر روپ ریکھا ورما اور ٹی ایم سی کی رکن اسمبلی مہوا موئترا ہیں۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے گجرات اور مرکزی حکومتوں سے جیل کی سزا کاٹ رہے مجرموں کی معافی کے لیے قبل از وقت رہائی کی پالیسی کی منتخب درخواست کے بارے میں سوال کیا تھا۔ یہ مشاہدہ کیا گیا کہ معاشرے میں اصلاح اور انضمام کا موقع ہر اہل سزا یافتہ کو دیا جانا چاہیے۔درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے حکومت گجرات کے مجاز اتھارٹی کے حکم کو چیلنج کیا جس کے ذریعے 11 افراد کو جو گجرات میں گھناؤنے جرم کے ملزمین تھے کو 15 اگست 2022 کو رہائی کی اجازت دی گئی۔سماعت کے دوران، ایڈوکیٹ شوبھا گپتا، بلقیس کی طرف سے پیش ہوئے۔ گجرات حکومت نے اپنے حلف نامے میں، مجرموں کو دی گئی معافی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے جیل میں 14 سال کی سزا مکمل کی اور ان کا “رویہ اچھا پایا گیا۔
No Comments: