
نئی دہلی ،29 دسمبر (میراوطن) سلسلئہ چشتیہ کے معروف بزرگ سلطان الہند حضرت خواجہ سید معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے 814ویں عرس کے موقع پر منعقد سیمینارمیں حضور خواجہ غر یب نوا ز ر حمتہ اللہ علیہ کو آسمان ولایت کا ماہ در خشاں قرار دیتے ہوئے جہاں ان کی ذات کو دیار ہند میں انعام خد ا وند ی اور عطائے رسول بتایا گیا،وہیں غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کو اسلام کا ایک عظیم مصلح و داعی قر ار دیا گیا۔ اس سیمینار میں دنیا کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ‘بزر گو ں کی بارگاہ میں سچا خراج عقیدت یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کر یں اور معاشر ے میں سلگتے مسا ئل کے حل کےلئے تعلیمات صوفیاءکو عام کیا جائے۔
یہ علمی و روحانی اجتما ع اجمیر شریف کے جانشین مخدوم المشائخ حضرت سید محمد علی حمزہ میاں چشتی اور خانقا ہ عالیہ چشتیہ حلیمیہ محبوب منزل اجمیر شریف کے سرپرست کی سرپرستی میں اس مقدس مرکز میں نہایت ہی وقار اور احترام کے ساتھ منعقد ہوا جہاں روایت اور عصری ایک دوسر ے کو گلے لگاتے رہے۔اس 64 ویں سمپوزیم کی نظامت حضرت پیر زادہ رئیس میاں چشتی (درگاہ حضرت سلیم چشتی، فتح پور سیکری، آگر ہ) نے کی جو گزشتہ 40 برسوں سے اس ذمہ داری کو منفرد انداز سے نبھا رہے ہیں۔ ان کے متاثر کن اسلوب، شاعرانہ اور صوفیانہ اشعار نے سامعین کو مسحور کیا اور محفل کو ایک خاص رونق بخشی ،جو کہ صوفی روایت کا طرہ امتیاز ہے۔
اپنے صدارتی خطاب میں حضرت سید محمد علی حمزہ میاں چشتی نے عرس اور سیمینار کے تاریخی پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ عرس کی روایت اور علمی سیمینار کس طرح ایک دوسر ے کی تکمیل کرتے ہیں- ایک ایمان کو مضبوط کرتا ہے، دوسرافکر اور فہم کو فروغ دیتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواجہ غریب نواز کی تعلیمات کسی ایک دور یا برادری تک محدود نہیں بلکہ ہر دور کے لیے رہنما ہیں۔
درگاہ حضرت سلیم چشتی، فتح پور سیکری، آگر ہ کے سجادہ نشین ارشد فریدی چشتی نے خدمت خلق کو صوفی راستہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عرس غریب نواز رحمت اللہ علیہ کی تاریخ 6 رجب اہم ہندوستان کے لئے یوم محبت ہے کیونکہ خواجہ صاحب نے ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی اور ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں اپنا پیغام انسانیت ،ہمدردی ،بھائی چارہ ،مساوات کو عام کیا ۔ارشد فریدی نے کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہہ ہم باہمی اتحاد کے ذریعہ خواجہ غریب نواز کے پیغام محبت کو عام کرکے اپنے وطن کو مثالی ملک بنائیں۔
سیمینار میں لکھنو سے آئے آصف زمان رضوی نے کہا کہ خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنما ہیں۔ صدیوں سے، اجمیر کی درگاہ ایک ایسی دہلیز رہی ہے جہاں بادشاہ اور فقیر، ہندو اور مسلمان، سکھ اور عیسائی – سبھی یکساں احترام کے ساتھ سر جھکاتے ہیں۔ خواجہ صاحب کا پیغام یہ ہے کہ انسانیت مذہب پر مقدم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا مزار تمام عمر عقیدت کا مر کز رہا ہے۔ آصف رضوی نے خواجہ غریب نواز کو اتحاد، یکجہتی اور انسانی معجزات کا لازوال پرچم بردار قرار دیا۔
اس موقع پرصاحبزادہ سید بشیر جمالی نے چشتی سلسلے کی علمی میراث پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی اجمیری کے مشن کو زندہ اور باقی رکھیں جیسے کہ خواجہ صاحب کے بعد ہمارے اسلاف نے غیرت و زندہ دلی کے ساتھ باقی رکھا ہے۔
حضرت شاہ عمار احمد احمدی (نیر میاں) نے صوفی تعلیمات کی سماجی مطابقت کو اجاگر کی۔انہو ں نے کہا آج پوری دنیا کے مسلمان خواجہ معین الدین چشتی سنجری کی کشف کرامات اور اہل اللہ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔حضرت سلطان الہند کا خاندان ،قرآن پاک کے حافظوں اور محافظوں کا خاندا ن رہا ہے ،اس لئے قر آن کی حفاظت کی دوہری ذمے داری بھی وابستگان غریب نواز کا روحانی اخلاقی فریضہ ہے ۔ سید محمد اشرف اشرفی جیلانی نے روحانی نظم و ضبط پر زور دیا۔ سید اسلم وامقی نے صوفی روایت میں مکا لمے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر دیگر مقررین سید احر ار میاں، سید معراج جیلانی، شاہ احمد میاں، شاہ عدنان میاں، ڈاکٹر شاہ الطاف احمد، اور مولانا شیخ محمد انتخاب عالم حقی صابری نے اپنے اپنے خطابات میں محبت، علم اور سماجی اتحاد کے پہلوﺅ ں پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر سیمینار کے بانی حضرت سید حلیم میاں چشتی کی حیات و خدمات پر مبنی کتاب ‘مرشد کاملین’ کا باقاعدہ اجراءکیا گیا جو کہ چشتی روایت کے مطالعہ میں ایک اہم دستاویز کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
آخرمیں مخدومل مشائخ حضرت سید محمد علی حمزہ میاں چشتی کی دعا کے ساتھ یہ روحانی و علمی محفل اختتام پذیر ہوئی اور اجمیر شریف سے ایک بار پھر دنیا کو یہ پیغام ملا کہ منزل ایک ہے محبت، رحمت اور انسانیت۔
خیال رہے کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کا محور اللہ سے محبت ،مخلوق سے ہمدردی ،عاجز ی اور سخاوت ہے ،جس میں دریا کی مانندسخاوت ،سورج کی طرح روشنی اور زمین کی طرح تواضع جیسے اجزا شامل ہیں ،جس کا مقصد ہندوستان سمیت دنیا بھر میں محبت،امن اور اسلام کا پیغام پھیلانا تھا ۔ان کی تعلیما ت کا خلاصہ ہے کہ دلوں کو جوڑو ،نفرتیں ختم کرو اور اللہ کی رضا کے لئے بندوں سے محبت کرو۔انھوں نے ہندوستان پر احسان عظیم کرکے ہندوستانیوں کو اخلاقی اور روحانی تمام امراض سے شفا بخشی اور ان کو ان کا کھویا ہوا مقام عطا کیا اور اس قدر نوازاکہ دنیا آپ کو غریب نواز کے نام سے پکارنے لگی اوران کی یہ فیاضی اور دریا دلی صرف اس وقت کے ہندوستانیوں پر نہیں بلکہ آج اور رہتی دنیا تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ بندہ نواز بن کر ہم منگتوں کے دستگیر ،سلطان الہند بن گئے اور ایسی سلطنت کی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔آپ ہمارے روح کے سلطان اس وقت بھی اور آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی رحمتہ اللہ علیہ کا 814واں عرس درگاہ اجمیر شریف میں عقیدت و ا حترام سے منایا گیا۔ یہ عرس صرف ایک مذہبی تقریب نہیںبلکہ ہندوستان کی مشترکہ ثقافت، گنگا جمنی ورثے اور صوفی اتحاد کی سب سے بڑی علامت ہے۔ تیرھویں صدی میں سرزمین ہند پر محبت کے چرا غ جلانے والے خواجہ غریب نواز نے انسانیت نواز فلسفہ کی بنیاد رکھی، جو آج بھی اجمیر شر یف کو امن، سکو ن اور بھائی چارہ کامرکز بنائے ہوئے ہے۔
یہ سمپوزیم سلطان الہند، عطاءرسول ، حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی – خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی اور تعلیمات پر توجہ مرکوز رہا۔ خواجہ صاحب کی صوفی تعلیمات آج بھی اتنی ہی ضروری اور کارآمد ہیں ۔ کیونکہ وہ ذات پات، مذہب، رنگ، جنس اور فرقے سے بالاتر ہیں اور محبت، رحمت اور انسانیت کا پیغام دیتی ہیں۔ موجودہ دور میں، درگاہ اجمیر شریف اس پیغام
ہم سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی اجمیری کے مشن کو زندہ اور باقی رکھیں:صا حبز ادہ سید بشیر جمالی
دنیا کے مسلمان خواجہ معین الدین چشتی سنجری کی کشف کرامات اور اہل اللہ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں: حضرت شاہ عمار احمد احمدی
درگاہ اجمیر شریف میں سلطان الہند حضرت خواجہ سید معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری ر حمتہ اللہ علیہ کے 814ویں عرس کے موقع پر سیمینارمنعقد
نئی دہلی ،28دسمبر :
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمت اللہ علیہ کی تعلیمات کا محور اللہ سے محبت ،مخلوق سے ہمدردی ،عاجز ی اور سخاوت ہے جس میں دریا کی طرح سخاوت ،سورج کی طرح شفقت ،اور زمین کی طرح تواضع جیسے اصول شامل ہیں ،جس کا مقصد ہندوستان سمیت دنیا بھر میں محبت ،امن اور اسلام کا پیغام پھیلانا تھا ۔آپ کی تعلیما ت کا خلاصہ ہے کہ دلوں کو جوڑو ،نفرتیں ختم کرو اور اللہ کی رضا کے لئے بندوں سے محبت کرو۔آپ نے ہند پر احسان عظیم فرما کر ہندوستانیوں کو اخلاقی اور روحانی تمام مرض سے شفا بخشا اور ان کو ان کا کھویا ہوا مقام عطا کیا اور اس قدر نوازاکہ دنیا آپ کو غریب نواز کے نام سے پکارنے لگی اور آپ کی یہ فیاضی اور دریا دلی صرف اسی وقت کے ہندوستانیوں پر نہیں بلکہ آج اور رہتی دنیا تک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ بندہ نوام بن کر ہم منگتوں کے دستگیر ،سلطان الہند بن گئے اور ایسی سلطنت کی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔آپ ہمارے روح کے سلطان اس وقت بھی اور آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
سلسلئہ چشتیہ کے معروف بزرگ سلطان الہند حضرت خواجہ سید معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری ر حمتہ اللہ علیہ کے 814ویں عرس کے موقع پر منعقد سیمینارمیں حضور خواجہ غر یب نوا ز ر حمتہ اللہ علیہ کو آسما ن ولایت کا ماہ در خشاں قرار دیتے ہوئے جہاںان کی ذات کو دیار ہند میں انعام خد ا وند ی اور عطائے رسول بتایا ،وہیں غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کو اسلام کا ایک عظیم مصلح و داعی قر ار دیا ۔سیمینار میں دنیا کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ’بزر گو ں کی بارگاہ میں سچا خراج عقیدت یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کر یں اور معاشر ے میں سلگتے مسا ئل کے حل کےلئے تعلیمات صوفیاءکو عام کیا جائے۔
یہ علمی و روحانی اجتما ع اجمیر شریف کے جانشین مخدوم المشائخ حضرت سید محمد علی حمزہ میاں چشتی اور خانقا ہ عالیہ چشتیہ حلیمیہ محبوب منزل اجمیر شریف کے سرپرست کی سرپرستی میں اس مقدس مرکز میں نہایت ہی وقار اور احترام کے ساتھ منعقد ہوا جہاں روایت اور عصری ایک دوسر ے کو گلے لگاتے رہے۔اس 64ویں سمپوزیم کا انعقاد حضرت پیر زادہ رئیس میاں چشتی (سجادہ نشین درگاہ حضرت شیخ سلیم چشتی ، فتح پور سیکری، آگر ہ) نے کیا جو گزشتہ 40 سالوں سے اس ذمہ داری کو امتیازی انداز سے نبھا رہے ہیں۔ ان کے متاثر کن اسلوب، شاعرانہ اشعار اور صوفی اشعار نے سامعین کو مسحور کیا اور محفل کو ایک خاص رونق بخشی ،جو کہ صوفی روایت کا ذخیرہ ہے۔
سیمینار کے افتتاحی خطاب میں حضرت سید محمد علی حمزہ میاں چشتی نے عرس اور سیمینار کے تاریخی پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ عرس کی روایت اور علمی سیمینار کس طرح ایک دوسر ے کی تکمیل کرتے ہیں- ایک ایمان کو مضبوط کرتا ہے، دوسرافکر اور فہم کو فروغ دیتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواجہ غریب نواز کی تعلیمات کسی ایک دور یا برادری تک محدود نہیں بلکہ ہر دور کے لیے رہنما ہیں۔
سیمینار میں لکھنو سے آئے آصف زماں رضوی نے کہا کہ خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنما ہیں۔ صدیوں سے، اجمیر کی درگاہ ایک ایسی دہلیز رہی ہے جہا ں بادشاہ اور فقیر، ہندو اور مسلمان، سکھ اور عیسائی – سبھی یکساں احترام کے ساتھ سر جھکاتے ہیں۔ خواجہ صاحب کا پیغام یہ ہے کہ انسانیت مذہب پر مقدم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا مزار تمام عمر عقیدت کا مر کز رہا ہے۔ آصف رضوی نے خواجہ غریب نواز کو اتحاد، یکجہتی اور انسانی معجزات کا لازوال پرچم بردار قرار دیا۔
اس موقع پرصاحبزادہ سید بشیر جمالی نے چشتی سلسلے کی علمی میراث پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ ہماری دمے داری ہے کہ ہم سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی اجمیری کے مشن کو زندہ اور باقی رکھیں جیسے کہ خواجہ صاحب کے بعد ہمارے اسلاف نے غیرت و زندہ دلی کے ساتھ باقی رکھا ہے۔
حضرت شاہ عمار احمد احمدی (نیئر میاں) نے صوفی تعلیمات کی سماجی مطابقت کو اجاگر کی۔انہو ں نے کہا آج پوری دنیا کے مسلمان خواجہ معین
کو نچلی سطح تک پہنچانے کا مر کز بن چکی ہے، جہاں سے ملک اور اس کے باشندوں کے لیے اتحاد اور ترقی کا راستہ نکلتا ہے۔
No Comments: