
نئی دہلی ،25دسمبر (میرا وطن )
مسجد فیض الٰہی کی بابت کارپوریشن کے محکمہ لینڈ اینڈ ایسٹیٹ میں فریقین کی سماعت کے دوران انکشا ف ہوا ہے کہ مسجد سے متعلق 1940کے لیز سمجھوتہ جو مرکزی سرکار کے ایل اینڈ ڈی او اور جامع مسجد منتظمہ کمیٹی کے درمیان ہوا تھا اس کے مطابق 0.195 ایکڑ زمین مسجد فیض الٰہی کی بتائی گئی ہے ۔ اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سوشل اینڈ آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ محمد شاہد گنگوہی نے بتایا کہ زمین کی پیما ئش کا ایکڑ میں پیمانہ دہلی میں 1940 کے بعد لاگو ہوا ہے ۔ اس سے پیشتر 1885کی سر کاری ہدا یا ت کے پیش نظر دہلی میں زمینی پیمائش بیگھا میں تھی اور ایک بیگھا3025 گز پر مبنی تھا۔ اس اعتبار سے فیض الٰہی مسجد کو لیز کی گئی زمین 0.939 بیگھا بنتی ہے۔اور گز کے اعتبار سے 2831.2 ہوئی ۔شاہد گنگوہی نے متعلقہ افسروںسے مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی فیصلہ پر پہنچنے سے پہلے سبھی حقائق کی باریکی کے ساتھ جانچ کی جائے۔
ادھردہلی میونسپل کارپوریشن نے رام لیلا میدان میں غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے اور غیر مجاز تجارتی سرگر میو ں کو روکنے کا حکم دیا ہے۔یہ حکم ایک تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے جب پتہ چلا کہ سرکاری ارا ضی ایک بڑی مسجد جیسے ڈھانچے کے لیے استعمال کی جا رہی تھی جو منظور شدہ نقشوں میں نہیں ہے، اور یہ کہ ایک شادی ہال نجی تقریبات کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
سرکاری حکم کے مطابق، یہ کارروائی سیو انڈیا فاو ¿نڈیشن کی شکایت کے بعد کی گئی ہے، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ترکمان گیٹ کے قریب رام لیلا میدان کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور مذہبی اور خیراتی سرگرمیوں کی آڑ میں اسے تجارتی مقا صد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔شکایت میں غیر مجاز ڈھانچے کی نشاندہی کی گئی، جن میں ایک بڑی مسجد/مرکز کا ڈھانچہ، ایک شادی ہال، اور کمرشل پیتھالو جی اور تشخیصی مراکز شامل ہیں جو عوام سے فیس وصول کر رہے تھے۔
میونسپل کارپوریشن نے لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (L&DO) اور دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (DDA) کے ساتھ مل کر 16 اکتوبر کو ایک مشترکہ سروے کیا۔سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ محکمہ تعمیرات عا مہ کے تحت تقریباً 2512 مربع فٹ سڑک اور فٹ پاتھ پر قبضہ کیا گیا تھا، جبکہ رام لیلا میدان کی تقریباً 36،428 مربع فٹ زمین جو میونسپل کارپوریشن کو لائسنس یافتہ تھی، غیر مجاز قبضے میں تھی، جہاں ایک شادی ہال، ایک پارکنگ لاٹ اور ایک پرائیویٹ ڈائیگناسٹک سنٹر تھے۔
شکایت کنندہ کی طرف سے دائر رٹ پٹیشن کے ذریعے معاملہ دہلی ہائی کورٹ تک پہنچاتھا۔12 نومبر کو ہائی کورٹ نے میونسپل کارپوریشن کو تین ماہ کے اندر تجاوزات اور غیر قانونی تجارتی سرگرمیوں کو ہٹانے کے لیے مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔عدالت کی ہدایات کی تعمیل میں میونسپل کارپوریشن نے 24 نومبر اور 16 دسمبر کو ڈپٹی کمشنر (لینڈ اینڈ اسٹیٹس) کی صدارت میں سماعتیں کیں۔کارروائی کے دوران مینجمنٹ کمیٹی، دہلی وقف بورڈ، ایل اینڈ ڈی او، ڈی ڈی اے اور ریونیو حکام کے نمائندوں کو سنا گیا۔
سماعت کے دوران، مسجد کی انتظامی کمیٹی نے شادی ہال کے وجود سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ احاطے کے کچھ حصے صرف کبھی کبھار شادیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور یہ کلینک ایک خیراتی ادارہ ہے جسے ضرورت مندوں کے لیے چلایا جاتا ہے۔دہلی وقف بورڈ نے 1970 کے گزٹ نو ٹیفکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے اراضی کو وقف جائیداد ہونے کا دعویٰ کیا اور ملکیتی دستاویزات پیش کرنے کے لیے وقت مانگا۔
تاہم، ریکارڈ اور دلائل کی جانچ کرنے کے بعد، میونسپل کارپوریشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حکومت ہند یا ایل اینڈ ڈی او کی جانب سے دہلی وقف بورڈ یا مینجمنٹ کمیٹی کو اراضی کی ملکیت کی منتقلی کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔آرڈر میں کہا گیا کہ ریکارڈ پر موجود واحد درست دستاویز 15 فروری 1940 کی لیز ڈیڈ ہے، جسے L&DO نے 0.195 ایکڑ کے رقبے کے لیے عمل میں لایا تھا۔
ڈی ڈی اے نے میونسپل کارپوریشن کو مطلع کیا کہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق زمین سرکاری ملکیت میں آتی ہے اور دہلی وقف بورڈ یا کسی دوسرے ادارے کو الاٹمنٹ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔حکم نامے میں کہا گیا کہ ریونیو حکام نے یہ بھی واضح کیا کہ قبضہ کرنے والوں کے دعووں کی حمایت کے لیے ملکیت کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔
اس تعلق سے22 دسمبر کو اپنے حتمی حکم میں ایم سی ڈی نے کہا کہ 0.195 ایکڑ کے لیز پر دیئے گئے رقبے سے باہر کوئی بھی ڈھانچہ تجاوزات کا حامل ہے اور اسے ہٹا دیا جانا چاہیے۔شہری ادارے نے کہا کہ مذہبی یا قبرستان کی زمین کو شادی کے مقام یا کلینک کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا، اور موجودہ سرگرمیوں کو ’سرکاری زمین کا زبردست غلط استعمال‘قرار دیا۔
No Comments: