نئی دہلی۔مذکورہ سپریم کورٹ نے مظفر نگر کے طالب علم کو تمانچے رسید کرنے کے معاملے کی سماعت کی اوراترپردیش حکومت سے کہاکہ وہ اس بات کویقینی بنائیںکہ ایک سینئر سرکاری افسر اس اسکول کے پرنسپل سے بات کرے جس میں متاثرہ لڑکے کے والدین داخلہ کرانے کے خواہش مند ہیں۔عدالت نے ریاستی حکومت سے یہ بھی پوچھا کہ مجوزہ کمیٹی کی کیا ضرورت تھی کہ متاثرہ کو خانگی اسکول میں داخلہ کی سہولت فراہم کی جائے۔جسٹس ابھے ایس اوکا اورجسٹس پنکج متھل پر مشتمل ایک بنچ نے سماجی کارکن تشار گاندھی کی دائرہ کردہ مفاد عامہ کی درخواست پر سنوائی کی جنھوں نے اگست میں پیش آئے واقعے کی مناسب جانچ کی مانگ کی تھی جس میں مظفر نگر میں ایک پرائمری اسکول ٹیچراسکولی بچوں کو اپنے مسلم کلاس ساتھی کو تمانچے رسید کرنے کی ہدایت دیتی ہوئی دیکھی دے رہی ہے‘ یہ ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل بھی ہواہے۔
ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج حکومت کی طرف سے جو پیش ہوئے تھے عدالت کومطلع کیاکہ تفتیش مکمل ہوچکی ہے اورتعزیرات ہند کی دفعہ 295اے (مذہبی جذبا ت کو مجروح کرنا یامذہبی عقیدہ کی توہین)اور جووینائیل جسٹس (بچوں کی دیکھ بھال او رتحفظ)ایکٹ 2015کے تحت الزامات لگائے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے 295اے کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت کا انتظار ہے۔پھربنچ نے حکومت سے کہاکہ دفعہ 295اے کے تحت پیشگی منظوری کی درخواست پر فوری فیصلہ کرے۔مذکورہ عدالت نے 30اکٹوبر کے روز واقعہ پر ریاستی محکمہ تعلیم کی جانب سے جواب داخل نہیں کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیاتھا۔عدالت نے حکم دیاتھا کہ ایف آئی آر میں شامل الزامات میں جانچ کے لئے ایک سینئر ائی پی ایس افیسر کو مقرر کریں۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہاتھا کہ ”اگر کسی طالب علم کو صرف اس بنیاد پر سزا دی جائے کہ وہ کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے تو کوئی معیاری تعلیم نہیں ہوسکتی“۔ ویڈیو کے مطابق ساتھی طالب علم توہین آمیز انداز میں مذکورہ طالب علم کے عقیدہ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک خانگی اسکول ٹیچر کی ایماء پر ایک 7سالہ کو تمانچے رسید کرتے ہیں۔سپریم کورٹ میں اس کی گہار کے ساتھ پی ائی ایل داخل کی گئی تھی کہ مقرر وقت میں اور ایک آزادنہ تحقیقات واقعہ کی کرائی جائے اور اسکولوں میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس کے خلاف تشدد کی روک تھا م کے لئے گائیڈ لائنس قائم کرے۔عدالت نے اس لئے جمعہ تک سنوائی کو ملتوی کردیاگیاکیونکہ ہفتہ کے روز ریاستی محکمہ تعلیم کی جانب سے دائرکردہ حلف نامہ پر عدالت غور نہیں کرسکی ہے۔
No Comments: