نئی دہلی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے درجے پر سپریم کورٹ میںسماعت کے ساتویں دن چیف جسٹس آف انڈیا کا ایک اہم تبصرہ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کے لیے قائم کی گئی تھی۔چیف جسٹس ڈی وی چندر چوڑ کی صدارت والی 7 ججوں کی آئینی بنچ اس معاملے میں اس حقیقت کا قانونی جائزہ لے رہی ہےکہ آئین کی دفعہ 30 کے تحت کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارے کے درجے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ بنچ میں سی جے آئی کے علاوہ جسٹس سنجیو کھنّہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس دیپانکر دتّہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش سی شرما شامل ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنام نریش اگروال اور دیگر کے معاملے میں آئینی بنچ نے سماعت کے دوران یہ واضح کیا کہ اقلیتی ادارے بھی پارلیمنٹ سے قومی اہمیت کے حامل ادارے (انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل ایمپورٹنس)کا درجہ پاسکتے ہیں۔ سماعت کے دوران نریش اگروال ودیگر کی جانب سے بنچ کے سامنے پیش ہوئے سینئر وکیل نیرج کشن کول نے کہا کہ ’’یہ دلیل دینا پوری طرح سے غلط ہے کہ مسلمانوں کے اقلیتی حقوق خطرے میں ہیں۔‘‘ بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق نیرج کشن کول نے کہا کہ ’’ریزرویشن یا اقلیتوں کے کون سے حقوق چھینےجارہے ہیں؟ ایسا کیا ہو رہا ہے کہ ملک میں سیکولر ڈھانے کو نقصان پہنچانے کی بات ہو رہی ہے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ملک کے تمام شہری یکساں ہیں۔
No Comments: