قومی خبریں

خواتین

ثمرین ندیم ثمر کے مجموعۂ غزلیات “خوشبوئے خیال” کی تقریب رونمائی

دوحہ:قطر میں 1959 سے اردو شعر و ادب کے گلش کی آبیاری کرنے والی تنظیمـ’بزم اردو قطر‘کے زیرِ اہتمام خوش فکر شاعرہ ثمرین ندیم ثمر کے مجموعۂ غزلیات ‘خوشبوئے خیال’ کی تقریبِ رونمائی و مشاعرہ وزارتِ ثقافت قطر کے تعاون سے بیت السلیطی کلچرل سینٹر، دوحہ کے وسیع ہال میں پر وقار انداز میں 12 مئی 2023 بروز جمعہ کی شام کو منعقد ہوا۔ پروگرام کی صدارت بزمِ اردو قطر کے صدر محمد رفیق شاد اکولوی نے فرمائی جب کہ پاکستان سے تشریف لائے استاد شاعر و ماہرِ عروض ڈاکٹر آفتاب مضطر نے مسندِ مہمانِ خصوصی کو رونق بخشی۔ مہمانان اعزازی کی کرسی پر ثمرین ندیم ثمر اور بزم اردو قطر کے سرپرست عبد الرحمان ندیم جلوہ افروز ہوئے۔

پروگرام کا بابرکت آغاز محمد رفیق شاد اکولوی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ نثری حصے کی نظامت کے فرائض بزم اردو قطر کے سرپرست و اس پروگرام کے منتظمِ اعلیٰ ڈاکٹر خلیل اللہ شبلی نے بحسن و خوبی انجام دیے۔ بزم اردو قطر کے جنرل سیکرٹری افتخار راغب نے مہمانان کا استقبال کیا۔ ثمرین ندیم ثمر کی کتاب اور شخصیت پر اپنے اپنے انداز میں مختلف زاویوں سے انور علی رانا، فیاض بخاری کمال، افتخار راغب، ڈاکٹر فیصل حنیف، ڈاکٹر آفتاب مضطر اور محمد رفیق شاد اکولوی نے مختصر مضامین پیش کیے یا اظہار خیال فرمایا۔ ڈاکٹر شبلی نے ثمرین ندیم ثمر سے مکالمہ کر کے ان کی شاعری اور کتاب کے حوالے سے دلچسپ معلومات سے حاضرین کو محظوظ کیا۔ ثمرین ندیم ثمر نے کتاب سے کئی غزلیں پیش کیں اور خوب داد و تحسین وصول کی۔

کتاب کی رونمائی کے بعد بزمِ اردو قطر اور پاکستان کلچرل فورم قطر کی جانب سے وزارت ثقافت قطر کے نمائندے محترمہ مریم یاسین الحمادی ( ڈائریکٹر ڈپارٹمنٹ آف کلچر اینڈ آرٹ)، محترم جمال فائض السعید (کلچر ایڈوائزر), نزہۃ سلووی (کلچر افیئرز اسپیشلسٹ ) اور پاکستانی سفارت خانے سے وابستہ محترمہ آمنہ جاوید (فرسٹ سکریٹری ) اور محترم وحید اللہ وزیر (کمیونیٹی ویلفیئر اٹیچ) اور پاکستان سے تشریف لائے مہمان شاعر ڈاکٹر آفتاب مضطر اور ثمرین ندیم ثمر کو شیلڈ پیش کی گئی۔

مشاعرے کی نظامت کے فرائض بزم اردو قطر کے چیئرمین اور گزر گاہِ خیال فورم کے صدر ڈاکٹر فیصل حنیف نے دلچسپ ادبی واقعات، برجستہ اشعار کے ساتھ بہ حسن و خوبی انجام دیے۔ مشاعرے میں محمد رفیق شاد اکولوی، ڈاکٹر آفتاب مضطر اور ثمرین ندیم ثمر کے علاوہ عتیق انظر، ہندوستان سے تشریف لائے مہمان شاعر اسلم ثانی، افتخار راغب، مظفر نایاب، ڈاکٹر وصی بستوی، جمشید انصاری، فیاض بخاری کمال، انور علی رانا، انعام عازمی، شاہزیب شہاب، شبّر علی اور محمد طلال فاضل نے اپنے منتخب کلام پیش کر کے حاضرین سے اپنے حصے کی داد و تحسین وصول کی۔

مشاعرے کے اختتام پر بزمِ اردو قطر کی جانب سے شعرائے کرام اور دیگر معاونین کو پروگرام میں شرکت و تعاون کے لیے سرٹیفکیٹ پیش کی گئی۔ آخر میں پاکستان کلچرل فورم کے زیر اہتمام محفلِ غزل منعقد ہوئی جس میں ثمرین ندیم ثمر اور ڈاکٹر آفتاب مضطر کی چند غزلیں مقامی گلوکاروں نے موسیقی کے ساتھ پیش کی۔ کثیر تعداد میں با ذوق حاضرین نے پروگرام میں شرکت کی اور اسے کامیابی سے ہم کنار کیا۔ پروگرام کے اختتام پر لذیذ عشائیے کا انتظام تھا۔

مشاعرے میں پیش کیے گئے کچھ منتخب اشعار باذوق قارئین کی نذر:

چلتے تو مصلحت کی ہیں بیساکھیاں لیے
اور ہم سے یہ گلہ کہ رویہ بدل گیا
اکیسویں صدی کا یہ دورِ اباہیت
اک اژدہے کی شکل میں کیا کیا نگل گیا
محمد رفیق شاد اکولوی (صدرِ مشاعرہ)

ہر ظلم ترا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
ساحل پہ کھڑے ہو تمھیں کیا غم، چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
ڈاکٹر آفتاب مضطر (مہمانِ خصوصی)

وقت ہے ہاتھ سے پھسلتی ریت
وقت بہتی ندی کا پانی ہے
چھیڑتی ہے جو دل کے تاروں کو
دل کے جذبات کی روانی ہے
ثمرین ندیم ثمر ( مہمان اعزازی)

نظم بعنوان “رات کا ختم قصہ کرو” اور “آس کی ڈور مت چھوڑنا”
عتیق انظر

پہلے سارے راستوں کو بے شجر اس نے کیا
اور پھر سورج کو میرا ہم سفر اس نے کیا
با خبر کرتا رہا میں اس کو اسکے حسن سے
مجھ کو اپنے آپ سے بھی بے خبر اس نے کیا
اسلم ثانی ( ہندوستان سے تشریف لائے مہمان شاعر)

چلو کہہ دو کہ ہے مجھ سے محبت
نہیں ہے تو نہیں بھی کم نہیں ہے
ستم سہہ کر بھی دل رہتا ہے راغب
کہ وہ ظالم حسیں بھی کم نہیں ہے
افتخار راغب

قطعۂ تاریخ
مْشک آمیز و معنبر ہو یہ “خوشبوئے خیال”
موج در موج گلستاں میں چلے موجِ شمیم
گلشنِ شعر میں نایاب مہک بن کے رہے
:عِطرِ زیبائشِ گلدستۂ ثمرین ندیم:
(2023 عیسوی)
مظفر نایاب

آج فرصت ہے تو لمحوں کو سمیٹوں میں ذرا
کل یہ منظر مری آنکھوں سے گزر جائے گا
زندگی اتنی اذیت بھی نہ دے تو مجھ کو
تری چاہت کا جنوں سر سے اتر جائے گا
وزیر احمد وزیر

سفید چاندنی بکھری تھی اس کے عارض پر
کوئی چراغ تھا آنکھوں میں جھلملاتا ہوا
الجھ رہا ہے وہ اپنے وجود کی خاطر
حصار موج میں اک عکس تھرتھراتا ہوا
ڈاکٹر وصی الحق وصی

سدا اوروں کے عیبوں پر نظر جاتی ہے لوگوں کی
کبھی اپنی کمی پر بھی نظر جاتی تو اچھا تھا
مجھے جمشید دیوانہ سمجھتے ہیں جہاں والے
کبھی یہ بات ان تک بھی اگر جاتی تو اچھا تھا
جمشید انصاری

چشمِ تَشنہ میں زمانے سے تھا صحرا رکّھا
پیاسی نظروں کو وہ سیراب کرانے آئے
نکہتِ صبحِ چمن سے نہیں کچھ بیر ہمیں
اْن ستاروں سے ہے نسبت جو جگانے آئے
فیاض بخاری کمال

اپنی سوچوں کے گلستان میں ہیں
سب پرندے ابھی اڑان میں ہیں
تجھ میں ہمت نہیں چلانے کی
تیر مانا تری کمان میں ہیں
انور علی رانا

اس نے مجھ سے پھول مانگا تو مجھے حیرت ہوئی
لڑکیوں کو میں سمجھتا تھا ستارہ چاہیے
باغ کہتے ہیں اُسے لایا کرو تم سیر کو
پھول کہتے ہیں ہمیں اس کا اُتارا چاہیے
انعام عازمی

محبت اک حقیقت ہے فسانہ کہہ نہیں سکتے
کسے ہو جائے کب کس سے، یہ دانا کہہ نہیں سکتے
یوں ہی بد حال پھرنے سے تو ہجرت لاکھ بہتر ہے
کہاں لکھا ہے تیرا آب و دانہ کہہ نہیں سکتے
شبّر علی

تو تصور میں بھی باہم نہیں رکھا جاتا
مجھ سے اب اور ترا غم نہیں رکھا جاتا
اتنا بکھرا ہوں محبت میں کہ خود چاہ کے بھی
مجھ سے اب خود کو منظم نہیں رکھا جاتا
شاہزیب شہاب

خزاں کی فکر کو چھوڑ اور سمجھ بہار مجھے
میں اچھا وقت ہوں دل کھول کر گزار مجھے
دعا کا تیر نشانے پہ جا لگا میری
پلٹ کے آ گیا جس کا تھا انتظار مجھے
محمد طلال فاضل

رپورٹ: افتخار راغب
جنرل سکریٹری بزمِ اردو قطر
دوحہ قطر

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *