امیر ترین کاروباری اور ٹیسلا کے سربراہ ایلن مسک نے ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی بننے والی ٹیم میں اپنی خاص جگہ بنا لی ہے۔ حالانکہ دوسری طرف مسک پر کئی الزامات بھی لگ رہے ہیں۔ نئے معاملے میں ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر جانبداری کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں برطانوی روزنامہ ‘دی گارجین’ نے ‘ایکس’ کو زہریلا بتاتے ہوئے اس کا استعمال بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہیں دوسری طرف لگژری کمپنی لوئی وِٹاں کے سربراہ برنارڈ ارنالٹ ایلن مسک کی سوشل میڈیا کمپنی کے خلاف قانونی قدم اٹھانے جا رہے ہیں۔
فرانسیسی اخباروں کے ایک گروپ کا بھی الزام ہے کہ ‘ایکس’ ان کا مواد استعمال کرنے کے بدلے انہیں ادائیگی نہیں کر رہا ہے۔ دی گارجین کے ‘ایکس’ پر 20 ملین سے زیادہ فالوورس ہیں۔ اب اس کے ایکس ہینڈل کو آرکائیو کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کے صحافی خبریں حاصل کرنے کے لیے اس کا استعمال کرتے رہیں گے۔ 200 سال پرانے معروف میڈیا ادارہ ‘دی گارجین’ کافی عرصے سے ‘ایکس’ سے باہر نکلنے کی سوچ رہا تھا۔ امریکی انتخاب میں جس طرح سے اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال ہوا اس کو دیکھتے ہوئے میڈیا کمپنی نے اپنے فیصلے پر مہر لگا دی۔ برٹش اخبار ‘دی گارجین’ کی بنیاد 1821 میں پڑی تھی اور تب اس کا نام مانچسٹر گارجین تھا۔ سال 1959 میں اس کا نام بدلا گیا اور یہ لندن آ گیا۔ گارجین نے ایک نوٹ میں ‘ایکس’ کے باس ایلن مسک کو پلیٹ فارم کا زہر پھیلانے میں استعمال کا قصوروار قرار دیا۔
قابل ذکر ہے کہ مسک نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب وہ ٹرمپ کی خاص ٹیم کا حصہ بھی ہونے بننے والے ہیں۔ گارجین نے 13 نومبر کو لکھے ایک مضمون میں کہا تھا کہ ‘ایکس’ پر نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم اپنی خبروں کی تشہیر کہیں اور کریں۔ برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ مسک نے ایکس کا استعمال سیاسی ایجنڈا سیٹ کرنے کے لیے کیا۔
No Comments: