:لکھنؤ
مصنفہ نشاط پیکر کاطویل علالت کے بعد لکھنؤ کے ایرا میڈیکل کالج میں آج صبح 6بج کر 10منٹ پر انتقال ہو گیا۔ان کے صاحبزادے نے بتایا کہ وہ کئی ہفتوں سے بیمار چل رہی تھیں جن کا علاج دہلی کے سیتا بھرتیہ اسپتال میں چل رہا تھا لیکن ان کے صحت میں کوئی بہتری نہ ہونے کی صورت میں گزشتہ جمعہ کو ان کو لکھنؤ کے ایرا ا میڈ یکل کالج میں علاج کے لیے منتقل کرایا گیا،جہاں ماہرین ڈاکٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود انھیں بچایا نہ جا سکا۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے ان کا لیور کام کرنا پوری طرح سے بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ آئی سی یو میں بھرتی تھیں۔
ان کی نماز جنازہ ابو بکر مسجد میں پڑھائی گئی،ان کی تدفین کالا ڈنڈا 60فٹہ روڈ قبرستان میں عمل میں آئی۔نماز جنازہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل، جج اور ادبی و سماجی شخصیات نے نماز جنازہ میں شرکت کی اور ان کے حق میں مفرت کی دعائیں کیں۔
انھوں نے اپنے پیچھے بیٹے محبوب احمد (جو الہ آباد ہائی کورٹ میں سینئر وکیل ہیں)، چار بیٹیوں اور اعزو اقارب کو غم بھرے ماحول میں چھوڑ کر اس دنیا فانی سے الوداع کہہ دیا۔ان کے انتقال پر ادبی حلقوں میں غم کا ماحول ہے۔ان کے انتقال سے بلا شبہ ادبی اور علمی میدان میں خلا پیدا ہو ا ہے۔ جو کہ اس دور میں اس کا پر ہونا مشکل ہے۔
ان کی پیدائش شہر بنار س محلہ پرانی عدالت میں 1944میں ہوئی۔بچپن میں ان کے والدہ نے ان کے اندر شاعری کا شوق بیدار کیا اور ان کی اصلاح کرتی رہیں۔جب وہ شعر باقاعدہ کہنے لگی تو انھوں نے نذیر بنارسی کی شاگردی اختیار کر لی۔ نذیر بنارسی صاحب مصنفہ نشاط پیکر کے والد کے دوستوں میں سے تھے لہذا انھوں نے ان کا بہت خیال کیا۔ انھوں نے بی یو ایم ایس کرنے کے بعد ایک عرصہ تک محلہ لوہٹیا میں پریکٹس کی، پھر اپنے والدین کے ساتھ الہ آباد چلی آئی۔ مصنفہ نشاط پیکر کے نانیہال اور دادیہال میں زیادہ تر لوگ شاعر گزرے تھے لیکن اس وقت ان کے پھوپھی زاد بھائی غلام اطہر صاحب کی شاعری صوفیانہ انداز میں اپنے عروج پر تھے۔پیکر کے کلام میں بے ساختگی، سلیس زبان، مضمون آفرینی، سہل متمنع، الفاظ و آہنگ کا انتکاب و خوبیاں تھیں جو فن سخن میں انھیں امتیاز بخشی تھی۔ ان کے شعری میں چشم پر نم کے بیشتر اشعار کے جھرونکوں سے کہیں کہیں ماضی کا کرب جھانکتا ہے اور کہیں کہیں پر ان کا جینے کا سلیقہ اور حوصلہ مندی کا ثبوت بولنے لگتا ہے۔ نشاط پیکر کو اپنی ادبی دلچسپی و شعر و سخن کو اپنا وسیلہئ اظہار خیال بنانا انھیں اپنے بے انتہا محبت کرنے والی ماں سے وراثت میں ملی تھی۔ نشاط پیکر کا کلام بہت ہی بلند و بالا ہے۔ ان کے کلام میں شائستگی ہے، انداز بیان سادہ اور دل کش ہے۔ نشاط پیکر نے صرف غزلیں ہی نہیں لکھتی تھیں بلکہ حمد، نعت، نظمیں، قطعہ، رباعی سب لکھنے میں ان کو محارت حاصل تھی۔ ان کے یہاں تصوف کے اشعار بھی بے شمار ہیں اور انھوں نے دنیا کے بے ثباتی پر بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کی نظر میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ ایک اچھا دنیادار ہی اچھا دین دار ہے۔
No Comments: